“کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق “

14

روداد خیال ۔صفدر علی خاں

سوشل میڈیا پر بداخلاق ٹولہ کی جانب سے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہم چلانے کا مقصد پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے سواکچھ نہیں۔قاضی فیض عیسیٰ کیخلاف بداخلاق ٹولے کی مہم انکی ذہنی پسماندگی کا اظہار کررہی ہے جبکہ قاضی فائز کے فیصلوں نے نئی تاریخ رقم کردی ہے اسے کوئی مخالف مٹانہیں سکتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ 13 ماہ تک پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس رہنے کے بعد 25 اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائرہوگئے ۔وہ پاکستان کی واحد عدالتی شخصیت ہیں جن کی تقرری بھی بطور چیف جسٹس ہوئی اور انہوں نے چیف جسٹس کی ہی حیثیت سے اپنا جوڈیشل کیرئیر انجام دیا ۔
قاضی فائز عیسیٰ کے تمام فیصلے انصاف کے تقاضے پورے کرتے نظر آتے ہیں ،وہ اگرچہ خود خاموش رہے مگر انکے فیصلے سر چڑھ کر بولتے رہے یہی سبب ہے کہ اب یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ قاضی فائز عیسیٰ اپنے بہترین عدالتی فیصلوں کی بدولت تاریخ میں زندہ رہیں گے انہوں نے تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی سماعت براہ راست نشر کرکے انصاف ہوتے ہوئے بھی دکھا دیا ۔بطور جج سپریم کورٹ جسٹس قاضی کا پہلا بڑا فیصلہ فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف تھا۔ فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں پر تمام 17 ججز نے اپنی اپنی رائے دی اور اکثریت رکھنے والے جج فوجی عدالتوں کے حامی تھے۔ لیکن جسٹس قاضی فائز نے اپنی رائے فوجی عدالتوں کے خلاف دی۔قاضی فائز عیسیٰ کا تحریرکردہ دوسرا اہم مقدمہ پاکستان میں تلور کے شکار کے اجازت نامے منسوخ کرنے کا تھا۔ انہوں نے بطور جج کوئٹہ سانحہ کمیشن کی سربراہی قبول کی۔ ان کا ایک اور اہم فیصلہ فیض آباد دھرنا کیس بھی ہے جو شہد کی مکھی کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کے انتہائی طاقتور حلقوں کو ناراض کردیا تھا۔جسٹس قاضی کے خلاف تحریک انصاف حکومت میں ریفرنس بنا۔ یہ ریفرنس اصل میں جسٹس قاضی کے متعدد فیصلوں سے ناراضی کا مظہر تھا یا پھر اسے مقتدر حلقوں کا رد عمل کہا جاتا ہے۔ بہرحال تحریک انصاف حکومت اس میں جانے انجانے میں خوب استعمال ہوئی آخرکار اس ریفرنس میں جسٹس قاضی باعزت بری ہوئے اور چیف جسٹس بننے میں آخری رکاوٹ بھی ختم ہوئی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وہ چیف جسٹس تھے جنہوں نے عدالتی سربراہ کے ازخود نوٹس کے اختیارات تین ججز کی کمیٹی کے حوالے کر دیے۔ یہ ایک جمہوری اور پارلیمنٹ کے قانون کو عزت دینے والا رویہ تھا۔ جسٹس قاضی نے چیف جسٹس بننے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسجرل ایکٹ پر پارلیمنٹ کا اختیار تسلیم کرتے ہوئے چیف جسٹس کے لامحدود اختیارات کو محدود اور جمہوری کر دیا۔ان کے دور کا دوسرا تاریخی فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کا فیصلہ ہے جو گزشتہ 14 برسوں سے سپریم کورٹ میں زیرِ التوا تھا لیکن کوئی چیف جسٹس اس پر سماعت نہیں کررہا تھا۔ اس ریفرنس کی آخری سماعت 2010ء میں ہوئی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ میں 8 چیف جسٹس تبدیل ہوئے۔ عدالتی الماریوں میں بند اس ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس قاضی نے کی اور 44 سال پہلے سپریم کورٹ سے ہوئی تاریخی غلطی کو درست کیا۔ اس ریفرنس میں سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ میں فیئر ٹرائل کا موقع فراہم کیا گیا۔ انصاف فراہم نہ کرنا نا انصافی ہی ہوتی ہے۔ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے کی سماعت بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی تھی جس کے فیصلے کے نتیجے میں ملک کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے خلاف کورٹ مارشل کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح اسی شخصیت سے متاثر ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو کالعدم قرار دے کر برطرف جج کو بحال کردیا تھا۔نواز شریف، جہانگیر ترین جیسے سیاستدانوں کو ثاقب نثار کی عدالت نے تاحیات نااہل قرار دیا تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہل کرنے والا آئین سے ماورا فیصلہ ختم کردیا اور اس حوالے سے قانون کے مطابق جوڑ کر سیاستدانوں پر مستقل نااہلی کی سزا کی تلوار کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔قاضی فائز عیسیٰ اپنے دور میں وہ کچھ کرگئے جو دوسرے جج نہیں کرسکے۔ انہوں نے سرکاری پلاٹ لینے سے انکار کیا۔ پروٹوکول کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے اور وہ اپنے گھر سے سپریم کورٹ تک پیدل آتے جاتے تھے۔ اپنی جائیداد سرکار کو دینے والے بھی شاید وہ پہلے جج ہیں۔قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے حق گوئی کی زندہ مثال بن کر دیگر ججز کیلئے مشعل راہ رہیں گے۔ ،بقول علامہ اقبال !

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے اَبلہِ مسجد ہُوں، نہ تہذیب کا فرزند
یہی وجہ ہے کہ ان سے مفاد پرست گروہ ناراض رہے وہ چاہے اپنے تھے یا پرائے انہوں نے تنقید برائے تنقید کا راستہ اپنایا ۔حالانکہ قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے غیر جانبداری کا مظہر ہیں ۔ناراض ہونے والوں میں مستعفی ہونے والے جج اعجاز الااحسن کے علاوہ جسٹس منیب اختر اور برطرف کیے جانے والے جسٹس مظاہر اکبر نقوی شامل ہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک کے ساتھ بھی کمرہ عدالت میں ان کے تعلقات بہتر نہیں رہے۔ان کی حق گوئی سے اپنے اور پرائے ناراض ہوئے مگر انہوں نے ہر حال میں آئین و انصاف کی بالادستی کو مقدم رکھا ! شاعر مشرق علامہ اقبال پھر کہتے ہیں !

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

قاضی فائز عیسیٰ ایک بہترین منصف کے فرائض انجام دیکر قوم کے حقیقی ہیرو بن گئے انہوں نے اختیارات کی تقسیم اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا ،خواتین کے حقوق سمیت ہر شعبے کیلئے کام کیا ،ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ اہم کیسز کی سماعت کی ،سرکاری خرچ پر الوداعی پارٹی لینے سے انکار کیا تو قاضی فائز عیسی کو تمام ججز نے پیسے ڈال کر ظہرانہ دیا۔
اب سوشل میڈیا پر انکے بیرون ملک سفر کو بھی ہدف تنقید بنانے والے احمقوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ علامہ اقبال

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.