اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے ( پہلا حصہ )

12

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دشتِ امکاں
بشیر احمد حبیب

شاعر انقلاب جوش بلا کے مہ نوش تھے ۔ بادہ خواری کا یہ عالم تھا کہ بوتل کھلتی تو وقت کا احساس ہی نہ رہتا ، کچھ پتہ نہ چلتا تھا کتنے جام چلے اور کب تک چلے ۔ کسی خیر خواہ نے مشورہ دیا جوش صاحب آپ گھڑی رکھ کر پیا کریں اور آدھ گھنٹہ کے بعد اس شغل کو بند کردیا کریں ۔ جوش جو نہایت witty بھی تھے برجستگی سے جواب دیا ، واہ میاں تم گھڑی کا مشورہ دیتے ہو ادھر میں سوچتا ہوں گھڑا رکھ کے پیا کروں ۔

اور پھر کثرت مہ نوشی کی وجہ سے ان کی یاداشت پر ایسا برا اثر پڑا کہ صبح کی سیر کو جاتے تو واپسی پر گھر کا رستہ بھول جاتے اور گلی کے بچوں سے پوچھتے، بیٹا جوش صاحب کا گھر کس گلی میں ہے ؟

غالب کو کئی دن شراب نہیں ملی وہ دعا کے لیے مسجد جا پہنچے ، ابھی نیت نہیں باندھی تھی کہ مسجد کے باہر سے دوست نے آواز دی مڑ کے دیکھا تو وہ دو بوتلیں بغلوں میں دابے کھڑا تھا ، مرزا نماز چھوڑ کر واپس مڑنے لگے تو ساتھ کھڑے ہوئے شخص نے کہا مرزا نماز تو پڑھ لو , غالب نے کہا تم نے دیکھا نہیں دعا بن مانگے ہی قبول ہو گئی ہے۔

یعنی غالب نے پینے میں بھی ایک توازن رکھا ہوا تھا کہ کئی دن نہ ملنے پر بھی اس کی Witt متاثر نہیں ہوئی تھی ۔

درویش شاعر ساغر صدیقی کو ایک ایسی لڑکی سے عشق ہوا جس کا باپ نان فروش تھا ۔ ساغر کے والد کو علم ہوا تو انہوں نے ساغر کو واشگاف الفاظ میں بتا دیا اس گھٹیا خاندان کا ہمارے اونچے خاندان سے تعلق نہیں جڑ سکتا ۔ لڑکی کے باپ نے فوراً اپنی بیٹی کا رشتہ کسی جاننے والے کے ہاں کر دیا ۔ ساغر نے یہ سانحہ دل پر لیا اور گھر بار چھوڑ دیا ، کسی قوال گروپ کے ساتھ منسلک ہو گئے ، اور ان کی ہمنوائی میں دل کا سکون ڈھونڈھنے لگے ۔ زخم تازہ تھا اور طبیعت شاعری کے لیے موزوں تھی سو شاعری کا آغاز ہوا اور ساتھ ہی نشے کی عادت کا شکار بھی ہو گئے ۔ لوگ ساغر سے غزلیں لکھواتے اور کچھ رقم ادا کرتے جو وہ نشے میں اڑا دیتے ۔ کھانا داتا دربار سے کھاتے اور فٹ پاتھ پر سوتے۔ ادھر لڑکی سے ساغر کے عشق کا قصہ سن کر اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ۔ وہ ساغر کی تلاش میں داتا دربار پہنچی اور نشئیوں کے گروپ سے ساغر کو پہچان لیا ۔ اسے ساتھ چلنے کا کہا ، مگر وہاں اس کا ساغر کہاں تھا ، نشے میں ڈوبا ہوا ایک شخص تھا جو نشے کی نزر ہو چکا تھا اور اپنی محبت تک بھلا چکا تھا ۔ لڑکی کو مایوس واپس لوٹنا پڑا ۔

صدر ایوب نے کسی مشاعرے میں کسی اور کی زبانی ساغر کا کلام سنا ، متاثر ہو کر اس سے ملنے کی آ رزو کی ۔ پیامبر اس کو ڈھونڈھتے داتا دربار پہنچا مگر لونگی اور بنیان میں ملبوس اور نشے میں دھت ساغر کو دیکھ کر اسے سخت مایوسی اور دکھ ہوا۔ اور وہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی ۔ اس طرح ساغر کے باپ نے خاندان کی جس اعلی نسبی کا ذکر کیا تھا وہ ساغر اور اس کے خاندان کے کسی کام نہ آ سکی ۔ اور ساغر دنیا سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوا ، جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔

نشے کی تباہ کاریاں مشرق تک محدود نہیں ۔ ایلوس پریسلے اور مائیکل جیکسن جیسے نامور گائیک نشے کی لعنت کا شکار ہوئے ۔ ان کے پاس مال و دولتِ دنیا سب کچھ تھا مگر نجانے کونسے ایسے خلا تھے جن کو پر کرنے کے لیے وہ نشے کے عادی بنے اور پھر اسی نشے کا شکار ہونے ۔

غالب نے اس کا بھی جواب دے رکھا ہے ، وہ کہتے ہیں

  مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

اگر ہم اس ،” گونہ بیخودی” کا تجزیہ کریں تو یہ دماغ میں پیدا شدہ وہ کفیت ہے جو ہمیں ایسے کیف و سرور سے دو چار کرتی ہے  جس کے اثر میں ہم غم دوراں اور غم جاناں کسی قدر بھول جاتے ہیں یا پھر فکر و آ گہی کے سفر میں اس سمت کی طرف جا نکلتے ہیں جہاں سے ہجر و وصال کے مضمون جنم لیتے ہیں اور ہم تخلیق کاری کے بے پناہ امکانات کی دنیا میں سانس لے رہے ہوتے ہیں ۔ یا پھر ہم دوسروں کی تخلیقات کے سحر میں گم ہو کر اپنا درد و غم کہیں دور چھوڑ دیتے ہیں ۔

ایسی کیف و سرور کی کفیت اچھا میوزک سنتے ہوئے بھی طاری ہو جاتی ہے اور کسی پسندیدہ شخص سے ہم کلام ہوتے ہوئے بھی ۔ ایسا تب بھی ہوتا ہے جب آ پ کسی ایسی بزم میں ہوں جہاں آ پ کو سراہا جائے اور تمام نظریں آپ پر مائل بہ التفات ہوں ۔

یا پھر آپ تنہا ہوں اور غالب والی انجمن سجائے بیٹھے ہوں، یعنی ہم انجمن ہی سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو ۔

اگر ہم کیف و سرور کی اس کفیت کا طبیعاتی حوالوں سے تجزیہ کریں تو اس کی وجہ دماغ میں نکلنے والے نیورو ٹرانسمٹرز ہوتے ہیں جیے کہ ڈوپامین (dopamine)، سروٹونن (Serotonin )اور گابا (GABA) وغیرہ ۔

یہ نیورو ٹرانسمٹر آ پ کے depression کو کم کر کے آپ کے موڈ کو خوشگوار کرتے ہیں اور آ پ کو گہرے غم کی کیفیت سے نکال کر ایک پُرسکون اور بے فکری کی فضا میں لے جاتے ہیں ۔

افسردگی میں ڈوبے ہوئے یا depression میں مبتلا لوگوں میں ہر ایک کے پاس وہاں سے نکلنے کے لیے اپنے اپنے راستے ہیں ۔ کسی کی راہ فرار کتاب ,کسی کی فلم ، ٹی وی ، ڈرامہ ، لوگوں سے ملاقات اور گپ شپ ۔ یہ سب راستے میٹا فیزکل ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.