“کام اچھا مگر پھل کڑوا،،

103

رودادخیال ۰۰۰۰۰صفدر علی خاں

اب تک کی حکومتی کارکردگی پر غور کیا جائے تو آٹا،تیل کی قیمتوں میں کمی اور معاشی گراف میں بہتری کے باوجود عوام کی مشکلات کو دور کرنے میں مسلسل کوشش ابھی تک ناکامی کا تاثر ذائل نہیں ہو رہا اور عوام کی بے چینی برقرار ہے ،ناکامی بھی ایسی کہ جس میں رسوائی کی چبھن اسے بے چین کئے رکھتی ہے ،اب اسکی تازہ مٽال مجوزہ آئینی ترامیم کے پاس کروانے میں برتی جانے والی عجلت ہے جس پر ایک شور برپا ہے ،مخالفین اسے عدلیہ پر شب خون مارنے سے تعبیر کررہے ہیں ،اتحادیوں کے اخلاص پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں ،حکومت نے جلد بازی میں بل منظور کروانے کا جب نعرہء مستانہ بلند کیا تو ہر طرف سے مجوزہ قانون کے مسودے کی عدم دستیابی کی دبے لفظوں میں شکائت کا تاٽر بھی ابھر رہا تھا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ ہماری اطلاعات کے مطابق حکومت کی جانب سے تمام سٹیک ہولڈرز کو قانونی مسودے کی کاپیاں فراہم کر دی گئیں تھیں اور میڈیا پر بھی چیدہ چیدہ نکات پر بحث ہو رہی تھی لیکن اس بارے میں تمام تر شکوک وشبہات پیدا کرنے کیلئے ماحول بنانے والوں کا ایک اپنا طریقہ کار ہے جو طویل عرصے سے رائج رہا ہے ،سب سے زیادہ حکومت کو جو دھچکا لگا وہ اسکی اپنی کوتاہی کا شاخسانہ ہی ہے کیونکہ پورے معاملے کو دیکھ کر سمجھ یہی آئی ہے کہ حکومت نے آئینی ترامیم کے لئے نہ سازگار ماحول بنایا اور نہ اسکی پہلے سے تیاری کی ،سب سے بڑھ کر جو اب حکومت کو الٹا فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے وہ اسکی اتنے بڑے ایشو پر عوام کو اعتماد میں لینے کی خاطر آگاہی مہم نہ چلانے کی بھول ہے ،اگر حکومت موجودہ نظام انصاف کے نقائص کو شق وار سامنے لاکر اسے ٹھیک کرنے کا پروگرام مشتہر کر دیتی تو قانونی باریکیوں سے نابلد لوگ بھی معاملے کو سمجھ سکتے تھے ،بطور وکیل میرا اپنا خیال ہے کہ عوام کو اس کہنہ نظام عدل کی چیرہ دستیوں سے نجات دلانے کیلئے عدلیہ میں اصلاحات کا عمل ناگزیر ہے ،بادی النظر میں عدلیہ پر حکومت کا غلبہ پانے کی خواہش کا جو تاٽر پیدا ہورہا ہے وہ سراسر مخالفین کی پروپگنڈا مہم کی وجہ سے ہے کیونکہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے حکومت کی عدالتی نظام کو شفاف بنانے کی مخلصانہ کاوش کو مشکوک بنا دیا گیا اس کی دوسری وجہ عدلیہ کے ساتھ حکومت کے حالیہ معاملات بھی ہیں جن سے یہ تاٽر کھل کر سامنے آ رہا تھا کہ کچھ ججز ایک سیاسی جماعت کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انہیں قابو کرنے کی خاطر شائد حکومت قانون سازی کا سہارا لے رہی ہے۔ ایسے تاٽر پھیلانے والوں کا مقصد اب تک پورا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے کہ حکومت کی جانب سے جن اراکین پارلیمنٹ کو آسانی سے ساتھ ملاکر قانون سازی کا عمل جلدی میں پایہ تکمیل کو پہنچانے کی توقع تھی وہ بہت مشکل ہوگیا ہے ،انتہائی زیرک سیاستدان بھی شعبدہ بازوں کے دام میں آگئے اور لڑکھڑا گئے چاہے اس میں کچھ حکومت سے انکے ,,خراب تعلقات ،،بھی تھے جن کا تدارک بروقت نہیں کیا جاسکا اور عین وقت پر تعلقات بحال کرنے کی کاوشوں نے معاملے کو مزید مشکوک بنا دیا ۔حالانکہ آئینی ترامیم اب وقت کا تقاضا ہے ،ملٹری ٹرائل بھی صرف دہشتگردی کی وارداتوں پر جہاں حالات انتہائی خطرناک ہوں جزوقتی طور پر بنانے کی تجویز ہے اور خود مولانا فضل الرحمان سے زیادہ اس مسئلے کو کون سمجھ سکتا ہے ،میرے اپنے خیال میں حکومت کی جلد بازی پر مولانا کو اس شق سے متعلق اصل حقائق کی روشنی میں سمجھانے سے قاصر رہی ہے،دوسرے لفظوں میں حکومت کے پاس کسی بھی فریق کو مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے پر مناسب طریقے سے وضاحت دینے کیلئے جیسے وقت ہی نہ تھا جس سے ایک اور غلط تاٽر یہ دینے کی کوشش ہوئی کہ جیسے یہ مسودہ قانون کسی اور نے دیا ہے ۔حالات وواقعات نے سب کچھ غلط سلط کرکے رکھ دیا اور حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ اب عام آدمی کو جلد و سستا انصاف دینے والے نظام عدل کی جانب پیش رفت کرنے والی اصلاحات کے عمل کو بہت دور کیا جاچکا ہے ،درحقیقت معاملات کو جوں کا توں رکھنے والی اشرافیہ کی طرف سے حکومت کے حالیہ مجوزہ آئینی ترامیم کی کھل کر مخالفت کرنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اگر پاکستان کا نظام عدل کچھ فیصد بھی درست ہوگیا تو پھر ملک میں انکی شاہی خطرے میں پڑجائے گی ،غریب کو بھی بااٽر ،طاقتور ،سرمایہ دار اور جاگیر دار جتنا انصاف میسر آنے کی موہوم سی امید ہی مراعات یافتہ طبقے کی “بادشاہت ” کے خاتمے کی نوید بنے گی جو اشرافیہ اور انکے اللے تللوں کو کسی صورت قابل قبول نہیں ۔حکومت کی نیت کا رونا رونے والوں نے عوام کی خواہشوں کے بھی تو جنازے نکال دیئے ہیں ،اس بات سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان ترامیم سے حکومت مضبوط ہوگی یا کمزور !ہمیں تو غرض عوام کو وحشی طاقتوں سے نجات دلانے والے قانونی راستے سے ہے ،حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم کی بنیاد ہی عوام کو مساوی حقوق دینے پر رکھی ہے تو پھر اس سے بڑی اور کیا اچھائی ہوسکتی ہے ان ترامیم کے مابعد اثرات سے اگر کسی کے سیاسی مفاد پر حرف آتا ہے تو وہ بحث طلب معاملہ تو ہوسکتا ہے مگر یکسر کسی کی نیت پر شک کرنے والی روایت سے تو صرف پاکستان کے عوام کا ہی نقصان ہوگا ،کسی بھی وجہ سے غریب کو انصاف ملنا چاہئے ،لیکن ہم نے تو روشنی کو شہر بدر کرنے کا تہیہ کررکھا ہے ،یہی سبب ہے کہ حکومت کو اچھے کام کا نکما پھل مل رہا ہے ،استاد شاعر آرزو لکھنوی بھی یہی کہتے ہیں !

آرزو اس اندھیر نگر میں دن کی رات ہے رات کا دن

کھوٹے دام کھرے سونے کے اچھا کام نکما پھل ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.