میرے ملک میں طاقت کی سیاست

36

تحریر: محمد عمیر خالد

پاکستان میں کہنے کی حد تک پچھلے 76 سالوں سے آئین موجود ہے، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے الگ الگ شعبہ جات موجود ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان موجود ہے، بہت ساری سیاسی پارٹیاں موجود ہیں، سیاسی و غیر سیاسی ادارے موجود ہیں، ایوانِ صدر، ایوانِ وزیر اعظم، سینٹ آف پاکستان، قومی اسمبلی، پارلیمنٹ آف پاکستان، عام اور غریب عوام کے بنیادی و سماجی حقوق کا ڈھانچہ موجود ہے اور عوام کی رائے دہی کا پورا ایک سسٹم موجود ہے، نیز کاغذوں کی حد تک اور کتابی صورت میں پاکستان کے تمام اداروں کی بنیاد میں پوری طرح جمہوریت موجود ہے لیکن پورے پاکستان میں صرف اور صرف ایک ہی ادارہ ہے جس کی باقاعدہ طو ر پر مانی، جانی اور چلتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آئینِ پاکستان، تازراتِ پاکستان اور پاکستان میں جتنے بھی ادارے سیاسی پارٹیاں اور نام کی جمہوریت ہمیں دکھائی جا رہی ہے حقیقت میں یہ سب کچھ موجود بھی ہے یا نہیں۔
میری ناقص عقل کے مطابق اگر پاکستان میں جمہوریت اور جمہور مندرجہ بالا تمام اداروں کی خدمات سے مطمئن نہیں تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اداروں میں جمہوریت کی صورت تو موجود ہے لیکن میرے پیارے ملک پاکستان میں صرف اور صرف طاقت کی سیاست ہی موجود ہے۔ ایک ہی ادارہ ہے جو سب سے طاقتور ہے اور وہی طاقتور ادارہ ہے جس نے عملی طور پر پاکستان کی ریاستی بنیاد رکھی۔
میرے خیال میں ہمارے ملک میں شروع دن سے ہی تمام ادارے اگر حاکمانہ رویوں کا شکار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے ملک میں دکھتا کچھ اور ہے اور بکتا کچھ اور ہے۔ بیمار دراصل ہمارے سیاست دان ہیں جبکہ علاج صرف اور صرف غریب عوام کا ڈھونڈا جاتا ہے۔
یاد رکھیئے گا گٹر کا پانی گٹر میں سے نکال کر گلاس میں یا گلاس سے نکال کر پیالے میں ڈال دینے سے پینے کے قابل نہیں ہوتا، گندگی ہمیشہ گندگی ہی رہتی ہے۔ تاریخی طور پر پوری دنیا میں ماہرانہ تحقیق ہے کہ نیشنلزم کی بھرپور تحریک کے بغیر اتھارٹی کی غیر جمہوری صورتوں کو کبھی نہیں مٹایا جا سکتا۔ پاکستان میںطاقت اور جمہوریت اگر ایک دوسرے کو سہہ نہیں پارہے تو یہاں پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور طاقت ایک میان میں دو تلواروں کے مترادف ہیں۔
پاکستانی سیاست کی توجہ تشدد پیدا کرنے والی غربت، نابرابری اور عدمِ تحفظ کی بنیاد دور کرنے کے لیے کسی سوچی سمجھی پالیسی پر مرکوز نہیں بلکہ سارے پالیسی معاملات ایڈہاک ازم پر چلائے جا رہے ہیں۔ پاکستان 76 سال کا ہو گیا ہے مگر باحیثیت اسلامی اسٹیٹ پاکستان ابھی تک قبائلی سطح کے رشتوں، اقربا پروری اور خاندان پرستی کی ابتدائی منزلوں میں الجھا ہوا ہے۔
ایک ہی قانون، ایک ہی آئین اور ایک ہی جمہوریت آج بھی پاکستان کی بنیادوں میںگھر کیے ہوئے ہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس، بڑی مچھلیاں یہاں پر چھوٹی مچھلیوں کو کھا رہی ہیں، دن بہ دن ریاست کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی ساری طاقت اور قوت اداروں کی بجائے خاندانوں کی پرستش کے گرد گھومائی جا رہی ہے، نیز دو خاندان پاکستان میں ایسے موجود ہیں جو کہ سیاست کے قابل ہیں باقی پاکستان کی 25 سے 30 کروڑ عوام ما سوائے بلڈی سو لینز کے اور کچھ بھی نہیں۔
یہ بات تو ہم سب کے علم میں ہے کہ قوم کو درپیش مسائل کا حل کسی سیاسی جماعت کے پاس موجود نہیں ہاں البتہ اقتدار کی حوس، بادشاہت کا شوق اور طاقت کا غرور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈران کے خون کے ایک ایک قطرے میں شامل ہے۔
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج بھی پاکستانی قوم عالمی ارتقاء سے سخت عدمِ مطابقت کا شکار ہے اور تاقیامت رہے گی۔
پاکستان میں دن بہ دن اِن بُرے حالات کی پیدا وار مایوسی، کرپشن، فراڈ، چوری چکاری، قتل و غارت، قبضہ مافیا اور دہشت گردی کے خلاف طاقت کے بے رحم اور بے جا استعمال سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔
مہنگائی ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہے ہر طرف رونا دھونا اور ذلالت ہی دیکھنے میں مل رہی ہے مگر ہمارے ملک میں موجود بادشاہ صفت اور نہایت محبِ وطن سیاست دان طاقت کی سیاست کے زور پر قسمیں اٹھاتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان جیسا خوشحال ملک پورے دنیا میں موجود نہیں اور پاکستان دن بہ دن ترقی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہے جو کہ میرے نزدیک ما سوائے جھوٹ کے اور کچھ بھی نہیں جبکہ یہ با حیثیت ایک قوم کے ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.