سیاست میں ریاکاری کی روایت
پاکستان میں سیاست کو عبادت کا فرجہ دینے کے دعویدار ہی دھوکے اور ریاکاری سے اسے بے آبرو کرتے رہے ہیں ۔
ملک میں اشرافیہ کی حکمرانی رہتی ہے ،عوام کو محکوم بناکر ان سے تاوان لیا جاتا ہے ۔
کردار سے عاری لوگوں نے سیاست کو ریاکاری کا درجہ دیدیا ہے ،عوام کو ریلیف دینے کے نام پر ہر بار دھوکہ دیا جاتا ہے ۔جیسا کہ آپ نے اکٹر فلموں میں دیکھا ہو گا کہ ولن یا ہیرو کا کوئی دوست (ملی بھگت سے) ہیروئن کو چھیڑتا ہے اور اوپر سے اچانک ہیرو آجاتا ہے
اور وہ آکر نہ صرف ہیروئن کو اس مشکل گھڑی سے بچاتا ہے بلکہ چھیڑنے والے کی بھی اچھی خاصی دھلائی کرکے طبیعت صاف کر دیتا ہے۔۔؟
ایساہی کوئی بندوبست ہماری اشرافیہ کا لگتا ہے جو حکومتی تبدیلی کے حوالے سے سازگار ماحول بناکر نئی بساط بچھانے کے حوالے سے مقتدرہ کو بھی ہم خیال بنالیتی ہے ۔اس طرح کا طریقہ کار تو رائج رہا ہے کہ پہلے موجودہ حکومت سے عوام کا جینا حرام کرا دیا جائے اور جب عام آدمی کا غصہ انتہاؤں کو چھونے لگے اور تبدیلی کے حوالے سے لوگ پرجوش ہو جائیں تو پھر اپنی مرضی کے گھوڑے میدان میں اتارے جاتے ہیں ۔اسی طرح کا ہی ماضی میں ایک کھیل کھیلا گیا جس میں ٹرائل پر ریس میں دوڑائے جانے والے گھوڑے نے جیت کے بعد جتوانے والے سے بھی لگامیں چھڑا کر سرپٹ دوڑ لگانے کی کوشش میں کروائی گئی بازی کو ہار میں بدل دیا۔عوام کو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے مگر مایوسیوں کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا ۔ عمران خان کی انٹری بھی پاکستانی سیاست میں کچھ اسی انداز سے کرائی گئی تھی “امیدیں بندھانے والے ہی مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے گئے۔تاہم گرفتاری اور مقدمات کی طوالت نے حسب روایت انکی سیاست کو چمکادیا ہے دوبارہ” امید کی کرن” پیدا کی جارہی ہے۔ایک بیانیہ تیار کیا گیا ہے کہ وہی نجات دہندہ ہوگا ۔اب حالات عجیب ہیں ،بے چینی کی سی صورتحال ہے اور کوئی بھی مطمئن نہیں ،سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہےایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ عمران خان جیل سے باہر آکر سارے سسٹم کو ہی چیلنج کر دے اور ظاہری طور پر دکھی عوام کا اصلی نمائندہ بن کر موجودہ حکومت کو اپنے اتحادیوں (مولانا فضل الرحمن اور عوام پاکستان) کے ساتھ ملکر بہت ٹف ٹائم دے اور ان کی فل بینڈ بجا۔کر رکھ دے اور ساتھ ہی Midterm Elections کا بھی مطالبہ کر دے۔۔؟ یا پھر دوسری طرف سپریم کورٹ فارم 45 میں جیتنے والے امیدواروں کو حتمی MNA یا MPA ڈیکلیئر کر دے اور ساتھ ہی ساتھ مخصوص نشستوں کو بھی PTI یا سنی اتحاد کو الاٹ کر دیا جائے، جس کی بدولت PTI کو ایک Coalition گورنمنٹ بنانے کا دوبارہ سنہری موقع مل جائے۔۔؟بہرحال میرے محتاط اندازے کے مطابق پردے کے پیچھے کچھ نا کچھ کھچڑی ضرور پک رہی ہے اور ہمارے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر کوئی نہ کوئی تبدیلی کے بادل اس وقت منڈلاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔۔۔؟یہ بھی عین ممکن ہے کہ عمران خان اندر خانے کوئی ڈیل کرکے خود تو باہر اپنے بچوں سے ملنے کے بہانے چلا جائے اور PTI کو پرویز الٰہی کے حوالے کر دے، جوکہ مقتدر قوتوں کی نظر میں ایک “اچھا بچہ” ہے اور وہ ان کے ایجنڈا کو پوری جانفشانی کے ساتھ آگے بڑھاتا رہے، آخر اس نے بھی تو پارٹی کےلئے اتنی زیادہ قربانیاں دی ہیں اور لگاتار جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں ،مقدمات کا بھی مردانہ وار مقابلہ کر رہا ہے اور ماضی بعید میں پنجاب اسمبلی میں اتنی مار کھائی کہ آکسیجن ماسک لگا کر (بغیر آکسیجن سلنڈر کے) ویل چئیر پر بٹھا کر باہر نکالنا پڑا، لوگوں کے غم وغصہ سے بچا کر ۔۔۔؟رہا سوال شریفوں، اسحاق ڈار اور ان کے دیگر حواریوں کا تو انہوں نے کو کچھ کرنا تھا اب تک وہ کر چکے ۔اب انہیں سیاست بچانے کی فکر کرنا ہوگی ۔چچا ،بھتیجی نے بالترتیب وزارت اعظمیٰ اور وزارت اعلیٰ بخوبی انجوائے کرلی ،چچا تو دوبار “ہوٹے”لے چکے ہیں ،جس طرح بڑے بھائی کے حوالے سے الیکشن کا ماحول بنانے کی خاطر” اک واری ہور” کے نعرے بلند ہوتے رہے ۔ شریفوں کو پہلے ہی سارے کیسوں میں بھی عدالتی ریلیف مل چکا، بیرونی دورے بھی لگاتار کر لئے (اس غریب اور مقروض ملک کے قومی خزانے سے)، آئندہ آنے والے دنوں میں دیہاڑی لگانے والے ایگریمنٹ یا کوئی اور بندوبست بھی کر چکے، ساتھ ہی ساتھ اپنا سارا مال اسباب بھی سمیٹ کر محفوظ مقام پر منتقل کر لیا ،سب کچھ مکمل کرلیا صرف پاکستان کو منجدھار میں چھوڑ دیا گیا ۔؟دیگر صورت میں ہوسکتا ہے کہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے تنگ عوام الناس جماعت اسلامی کے ساتھ ملکر کوئی ایسی مزاحمتی تحریک شروع کر دیں جو پورے ملک میں پھیل جائے اور اس دوران کوئی بڑا واقعہ رونما ہو جائے، جس کی وجہ سے “طالع آزماوں” کو ایک بارپھر “عزیز ہم وطنوں والا “قوم سے خطاب کرنے کا موقع میسر ہو جائے۔۔؟
کچھ باخبر لوگ اس خیال کو رد کرتے ہوئے برملا کہتے ہیں کہ یہ اب نہیں ہوسکتا ۔پاکستان کے سچے خیرخواہ اسکی خیر چاہتے ہیں ،ہرطرح کے شر سے پاکستان کو محفوظ رکھنے والوں کو ہی آگے بڑھنا ہوگا اور ملک میں پھیلتی مایوسیوں کو مسترد کرکے امریکی نئی صبح روشن کرنا ہوگی ۔
قوم کی فلاح کو مقدم رکھنا ہی حب الوطنی کا سب سے اہم تقاضا ہے اس کو جو اپنی سیاست کا مرکز و محور بنالے گا قوم پھر اسے کسی صورت مایوس نہیں کرے گی ۔
اب تک ہونے والی سیاست میں ریا کاری اور دھوکہ بازی کے عمل نے عوام کے دلوں سے رہنمائوں کا احترام ختم کردیا ہے اس احترام کی بحالی کے لئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔