معاشرتی بگاڑ کا ذمے دار کون ؟

63

دنیا کی ہر چیز اپنی حیثیت کے تحت ہی اپنے مقام پر رہے تو عدل وانصاف کے قدرتی تقاضے پورے ہوتے ہیں مگر جیسے ہی کوئی چیز اپنے حقیقی مقام سے ہٹائی جاتی ہے توسب کچھ غلط، سلط ہو جاتا جس کے اثرات سے پورا ماحول ہی پراگندہ ہونے لگتا ہے
یہی اصول انسانی معاشرت پر بھی لاگو ہوتا ہے جس کا جو استحقاق ہو اسے ملے بصورت دیگر اس کے اصل محور سے ہٹائے جانے پر ہی ناانصافی کے نئے باب کھلتے ہیں ۔
پھر ہر شعبے میں ناانصافی کی خرابیاں پیوست ہونے لگتی ہیں جو پھر آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹنے لگتی ہیں ۔ان خرابیوں کو ٹھیک نہ کرنے سے مزید خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
انسان کی فطرت اور سرشت کے برعکس سرگرمیوں کا جو رواج اس جدید عہد میں پھیل رہا ہے۔
اس کے اثرات سے نئی نسل کو بچانا مشکل ہوگیا ہے ۔
نئی نسل کو گمراہ کرنے کا طریقہ واردات جو بھی اختیار کیا جارہا ہے
اس کے اثرات تیزی سے معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں ۔
معاشروں کے مزاج اور حرکیات کا تقابلی جائزہ لینے پر ہی اصل خرابی کاپتہ چلتا ہے۔
دنیا کے کامیاب معاشروں کی مثالیں دینے والے مختلف ممالک کے وسائل اور ان کی صلاحیتوں کا بھی موازنہ کیا کریں تاکہ دنیا پر اصل حقیقت آشکار ہوسکے۔
ترقی یافتہ معاشرے کی شاندار کارکردگی سامنے رکھ کر اپنی ناکامیوں پر کڑھنے کی بجائے حالات کو بہتر بنانے کی جستجو کرنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔
تاہم معاشرتی بگاڑ کی وجوہات میں بداخلاقی کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔ اعلی’ اقدار کی پاسداری کے ساتھ قومی یکجہتی کے لئے کام کرنا اب ہر معاشرتی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے معاشرتی اقدارکا تحفظ زیادہ اہم تھا مگر اسکے برعکس یہاں معاشرہ ہر لحاظ سے گراوٹ کے دلدل میں دھنس رہا ہے اوپر سے نیچے تک سب کچھ بگڑا ہوا ہے ،ہر سطح کی بگاڑ نے معاشرے کو تمام خوبیوں سے خالی کردیا ہے ۔قوم کو دھوکہ دینے کیلئے کئی طرح کی تاویلیں گھڑنے کا عمل ہماری رہی سہی ساکھ کا مکمل بیڑہ غرق کرنے کیلئے کافی ہے ۔
اس تناظر میں جب ہم معاشرے کو حسن اخلاق کے فروغ سے خوبصورت اور دلکش بنانے کا تصور ذہن میں لاتے ہیں تو کئی طرح کی رکاوٹیں حائل ہوجاتی ہیں ۔ معاشرتی بگاڑ کو روکنے کی خاطر پہلے اپنی حماقتوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرنا ہوگا ۔
اگر سبھی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہیں گے تو پھر ذمے دار کوئی نہ ہوگا اور دوسرے لفظوں میں ساری قوم ہی ان خرابیوں کی ذمے دار قرار پائے گی ،تاریخ اس دوغلے پن پر ہمیں معاف نہیں کریگی ۔
ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا بدصورت ترین موڑ تو یہ ہے کہ ہم اچھوں کو برا اور بروں کو اچھا قرار دیکر ظلم کی انتہا پر اتر آئے ہیں ۔ہماری سیاست میں یہ عمل بام عروج پر پہنچ گیا ہے ،
ہم نے اپنے ہیروز کو ولن بناکر اپنی بدبختی کا نقارہ بجایا ہے ۔ہمارے سامنے چرب زبان ہی اب بڑا لیڈر ہے اور ملکی وسائل کو برباد کرنے والے حب الوطنی کے دعویدار بنے پھرتے ہیں ۔قوم کو تقسیم کرکے نیا سقوط ڈھاکہ برپا کرنے کی صدائیں لگانے والوں کی ستائش ہورہی ہے بلکہ کسی حد تک تو اسے عوامی پذیرائی قرار دیا جارہا ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔
حالات کا تقاضا تو یہی تھا کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کو کیفر کردارتک پہنچایا جاتا نئی نسلوں کے ذہنوں میں زہر بھر کر ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والوں کا محاسبہ کیا جاتا مگر ایسا تاحال کوئی صائب فیصلہ سامنے نہیں آیا ۔جس سے پاکستانی معاشرے کی زبوں حالی آشکار ہورہی ہے ۔ معاشرتی خرابیوں کو جڑ سے ختم کرکے ہی پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہم کنار کیا جاسکتا ہے ۔

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/06/p3-3-1-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.