گذشتہ دنوں شمالی علاقہ میں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی اس دوران وہاں کے چند لوگوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ گلگت بلتستان میں سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچائیں ۔تقریبا” تین سو انسانوں کو بچانے والے غذر کے ان تین ہیروز کو جو پیشے کے اعتبار سے چرواہے ہیں ان کی شاندار خدمات اور صلاحیتوں کے اعتراف میں وزیر اعظم پاکستان نے ان سے ملاقات کرکے پچیس پچیس لاکھ روپے کے انعام سے نوازا ہے ۔ان میں وصیت خان ،انصار اور محمد خان شامل ہیں ۔ان چرواہوں نے اپنی علاقائی صلاحیتوں کی بنا پر فرض شناسی کی اعلیٰ مثال قائم کی اور سیلابی ریلے کی بروقت اطلاع دیکر اطراف کے دیہات کے رہائشیوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا ۔یہی نہیں بلکہ گلگت کی حکومت نے ہنزہ کے کریم اللہ بیگ اور چٹور کھنڈ دائن کے ناصر کو بھی سیلاب میں درجنوں لوگوں بچانے پر خراج تحسین پیش کیا ہے ۔جنہیں جلد وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں انعامات سے نوازا جاۓ گا۔ایسے ہی بلوچستان کے قلعہ عبداللہ کے ایکسکویٹر ڈرائیور محب اللہ کو بھی پچیس لاکھ روپے انعام دیا گیا ہے جس نے دریاے کولک میں سیلابی ریلے میں پھنسی گاڑی کو نہایت مہارت سے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سات لوگوں سمیت ریسکیو کیا تھا ۔ایسے ہی بےشمار مثالیں سامنے آچکی ہیں جہاں کے لوگوں نے اپنی خدادا د اور بےپناہ صلاحیتوں کی وجہ سے نہایت مشکل لمحات میں انسانیت کی خدمت کی کیونکہ ایسے علاقوں اور ایسے حالات میں صرف غیر معمولی صلاحیت کے حامل لوگ ہی اپنی صلاحیتوں کا صدقہ پیش کر سکتے ہیں ۔اس سے قبل خصوصی صلاحیتوں کے حامل محمد ہلال اور عصمت علی کو سوات کے سیلاب میں جانیں بچانے پر دس دس لاکھ انعام دیا جا چکا ہے ۔ایسے ہی بہت سے گمنام ہیروز بھی سامنے آے ہیں جنہوں نے جانیں بچاتے ہوے اپنی جانیں قربان کردیں ۔یہ ہمارے وہ ہیروز ہیں جن کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جاۓ کم ہوگا ۔ان کو قدرت نے جن بے پناہ سلاحیتوں سے نوازا ہے انہوں نے ان صلاحیتوں کے ذریعے انسانیت کی خدمت کا فرض ادا کردیا ۔اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر شاید اس سے بڑا صلاحیتوں کا صدقہ دینا ممکن نہ تھا ۔اس لیے ان کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جاۓ کم ہوگا ۔آپکی کوئی بھی صلاحیت انسانیت کے لیے کام آجاۓ تو اس سے بڑا صدقہ کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔
اباجی مرحوم ریٹائرڈ لفٹیننٹ محمد ایازخان پاکستان کے پہلے او ٹی ایس منگلا سے کمیشن حاصل کرنے والے آرمی افسر ان میں سے تھے ۔اور اس کورس میں پوزیشن لینے کا اعزاز بھی رکھتے تھے ۔ وہ ان فوجی افسران میں سے تھے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم ،ستمبر پینسٹھ کی جنگوں میں ناصرف حصہ لیا بلکہ جنگی اعزازات سے نوازے گئے اور اکہتر کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستا ن میں شدید زخمی ہوکر دو سال دشمن کی قید کاٹی ۔ برطانوی افواج میں خدمات انجام دینے کے دوران انہوں نے بےشما ر ٹرینگ کورسز کئے ان میں سے ایک کورس انگریزی خط و کتابت کا تھا جو لندن سے کیا جاتا تھا ۔اسی دوران انہوں نے ٹائپنگ پر عبور بھی حاصل کر لیا ۔اسی لیے انہیں انگریزی و اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی پر بھی دسترس تھی ۔فن تحریر وتقریر میں کمال حاصل تھا ۔ہمیشہ اپنا ایک ذاتی ٹائپ رائٹررکھتے تھے ۔وہ خط و کتابت اور تحریر کی غیر معمولی صلاحیت کو خدا داد سمجھتے تھے ۔ہزاروں لوگ ان کی اس صلاحیت کا فائدہ اٹھاتے تھے ۔ وہ انگریز جنرل جے ایچ مارڈن کے پرائیویٹ سیکریٹری رہے۔جنرل مارڈن نواب امیر آف بہاولپور کی پراپرٹیز کے کنٹرولر جنرل بھی رہے اور آخری دم تک نواب بہاولپور کے ساتھ وفادر رہے اور اسی سرزمین میں دفن ہونا پسند کیا ۔جنرل صاحب کی وفات کے بعد نواب امیر آف بہاولپور نے بھی ابا جی کو ا ن خدمات کی وجہ سے اپنا سوشل سیکریٹری مقرر کیا اور جب نواب امیر آف بہاولپور بریگیڈیر محمدعباس خان عباسی گورنر پنجاب بنے تو انہوں نے ان کی خدمات گورنر ہاوس کے لیے طلب کر لیں اور جب تک وہ گورنر ہاوس رہے اباجی بھی ساتھ ہوتے تھے ۔کہتے ہیں کہ انہیں اردو ہو یا انگریزی یا رومن لفظوں کو موتیوں کی طرح پرونے اور پر اثر بنانے پر بڑا عبور حاصل ہوا کرتا تھا ۔انہوں نے اپنے ایک جونیر ساتھی نائیک سیف علی جنجوعہ شہید جو جنگ آزادی کشمیر ۱۹۴۸ء میں ان کی زیر کمانڈ ایک پلاٹون کمانڈر تھے اور انہیں بے مثال بہادری سے لڑنے اور شہادت حاصل کرنے پر پہلا اور آخری” ہلال کشمیر “عطا ہوا تھا جب آزاد کشمیر رجمنٹ پاکستانی افواج کا حصہ بنی تو تقریبا ” تیس سال تک وہ اپنے اس مجاہد کے لیے طویل خط وکتابت اور جدوجہد کرتے رہے کہ ان کے“ ہلال کشمیر “کو “نشان حیدر “کا درجہ دیا جاۓ اور آخر کار وہ کامیاب ہوۓ اور وزارت دفاع کی جانب سے نشان حیدر کے لیے جاری ہونے والے گزٹ کی کاپی صرف ان کو ہی بھجوائی گئی اور ان کی طویل جدوجہد کا اعترف کیا گیا ۔محکمہ سوشل ویلفیر کا پاکستان میں قیام ،پہلے بیت المال کا قیام اور بہاولپور سے آغاز اور نواب بہاولپور کی برسی پر مقامی چھٹی کا اعلان ان کی خط و کتابت کے ہی کما ل ہیں ۔آخری عمر میں بھی ان کے پاس مختلف مسائل کا شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزآنہ آتی تھی ۔اس زمانے میں جب لوگ انگریزی لکھنا نہیں جانتے تھے تو انگریزی جاننے والا اور انگریزی ٹائپ رائٹر ہی سب سے اہم اور ضروری چیز سمجھا جاتا تھا ۔ہمارے پورے علاقے میں یہ واحد نجی ٹائپ رائٹر ہوا کرتا تھا ۔لوگ دور دور سے اپنی درخواستیں ،خطوط کے جواب ،ملازمت کے حصول کے لیے درخواستیں کے ساتھ ساتھ مختلف درپیش مسائل پر تحریریں ٹائپ کرانے ان کے پاس آتے تھے ۔اباجی ان سب لوگوں کا کام بلا معاوضہ کرتے اور بعض اوقات پوری پوری رات ان کاموں پر صرف کردیتے ۔بےشمار نوجوانوں کو فوج میں کمیشن دلانے میں رہنمائی ،سی ایس ایس کرنے کی ترغیب دینا ، فوج اور پولیس میں بھرتی کے لیے معلومات فراہم کرنا اور روزگار کے لیے ہر نوجوان کا ساتھ دینا ان کا معمول ہوتا تھا ۔انہوں نے پاکستان میں بےشمار فلاحی ادارے بناۓ جن کا بنیادی مقصد لوگوں کی بھلائی ہوتا تھا ۔پاکستان سوشل ایسوسی ایشن ،پاکستاں ٹی بی ایسوسی ایشن ،جہاد کمیٹی ،صادق دوست اکیڈمی ، پاکستان سیرت کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ ساتھ وہ سابق فوجیوں اور شہداء کے خاندانوں کی فلاح وبہبود اور مدد میں ہمیشہ پیش پیش رہے ۔پچاسی سال کی عمر میں بھی جب ان کی بینائی اور جسم ساتھ چھوڑ رہا تھا انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور ان کا ٹائپ رائٹر کام کرتا رہا ۔جب بیماری کی باعث لکھنااور ٹائپ کرنا مشکل ہو گیا تو بھی بستر پر سے ہی زبانی رہنمائی کرتے رہتے اور لوگوں کو اردو ،انگریزی کے ڈرافٹ لکھواتے رہتے تھے۔
وہ کہتے تھےکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اپنی قدرت کے خزانے سے کچھ نہ کچھ خاص عطا کیا ہوتا ہے ۔کوئی خوش گفتار ہے ،کوئی خوش قلم ہے ،کوئی ہنر مند ،اور کوئی علم ودانش کا پیکر ہوتا ہے کوئی سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو کوئی سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ہر صلاحیت ہر فرد کے پاس نہیں ہوتی ہم سب ایک دوسرے کی مدد کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے ۔اصل سوال یہ ہے کہ ہم ان خداداد صلاحیتوں کو کیسے استعمال کرتے ہیں ؟ کیا انہیں صرف اپنی ذات اور دنیاوی مفاد تک محدود رکھتے ہیں یا پھر دوسروں کے فائدے کےلیے بھی بانٹتے ہیں ؟ صدقہ ہمیشہ روپے پیسے کا نام نہیں ہوتا ۔کبھی ایک نرم بات صدقہ ہے ،کبھی رہنمائی کا ایک جملہ صدقہ ہے،کسی کی حوصلہ افزائی اور کبھی اپنا علم وہنر کسی ناواقف کو بانٹ دینا بھی صدقہ ہے ۔ علم اور مہارت کا صدقہ سب سے بہترین صدقہ ہوتا ہے ۔کسی کو مفت سکھانا یا رہنمائی کرنا ،کمزور یا ناتجربہ کار شخص کو کام میں ہاتھ بٹانا ، کسی کی جان بچانا ،کسی کی صلاحیت کو نکھارنے میں وقت اور مدد دینا ،کسی کو حوصلہ دینا ،اپنے اچھے رویے سے دوسروں کو متاثر کرنا ،اپنی پوزیشن ،تعلقات یا صلاحیت کو کسی مظلوم کے حق کے لیے استعمال کرنا دراصل وہ صدقات ہیں جن کا تعلق مال دولت سے نہیں ہوتا اس لیے یہ صدقہ دینا ہر انسان کے لیے بہت آسان ہے ۔صلاحیت کا صدقہ کرنے سے صلاحیت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھ جاتی ہے ،دل میں برکت اور اطمینان پیدا ہوتا ہے ،معاشرہ مثبت اور تعاون پر مبنی بنتا ہے ۔علم مہارت ،صلاحیت اور اخلاق وکردار کا صدقہ “صدقہ جاریہ “بھی ہوتا ہے ۔“صلاحیتوں کا صدقہ “خدا کی دی ہوئی عطا کو خدا کے بندوں میں بانٹ دینے کا نام ہے ۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قابلیت میں برکت ہو ،ہماری دعاوں میں اثر ہو اور ہماری زندگی میں سکون ہو تو ہمیں اپنی صلاحیتوں کو اپنے تک محدود رکھنے کی بجاۓ دوسروں کے لیے آسانی کا ذریعہ بنانا ہو گا کیونکہ یہی وہ راہ ہے جو دنیا کو بھی سنوارتی ہے اور آخرت کو بھی اور ساتھ ساتھ اس دنیا سے جانے کے بعد بھی یہ صدقہ جاریہ کے طور پر موجود رہتی ہے ۔علم اور ہنر یا صلاحیت کی منتقلی فرض ہی نہیں عبادت بھی ہوتی ہے ۔ڈاکٹر ہو ،استاد ہو ،یا کوئی بھی کسی بھی کام کا ہنر مند ہو اگر وہ اپنی صلاحیتوں سے انسانیت کی خدمت کرتا ہے تو یقینا”دین ودنیا کی بھلائی حاصل کر لیتا ہے ۔