معرکۂ حق اور میثاقِ پاکستان — پاکستان آرمی راکٹ فورس کمانڈ کی تشکیل۔۔۔۔
شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ 0300-6668477
یومِ آزادی کی صبح جب افق پر سورج نے اپنی کرنوں سے سبز ہلالی پرچم کو روشنی کا سلام پیش کیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے 78 برس پہلے کا وہ لمحہ پھر سے لوٹ آیا ہے، جب برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے خواب کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے آزادی کی فضا میں پہلا سانس لیا تھا۔ یہ دن صرف جشن کا دن نہیں، بلکہ قربانی، عزم، اور اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم اس وطن کی حفاظت اور تعمیر کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں۔
اسی جذبے کے تحت وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اسلام آباد کے جناح سپورٹس کمپلیکس میں یومِ آزادی اور “معرکۂ حق” کی فتح کے موقع پر قوم سے ایک ایسا خطاب کیا جس کی گونج صرف ہال کی دیواروں تک محدود نہیں رہی، بلکہ پورے پاکستان کے دلوں میں اتر گئی۔ انہوں نے دو بڑے اور اہم اعلانات کیے — ایک، پاکستان آرمی راکٹ فورس کمانڈ کی تشکیل، اور دوسرا، تمام سیاسی جماعتوں کو “میثاقِ پاکستان” میں شامل ہونے کی دعوت۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ آزادی صرف ایک جنگ کا نتیجہ نہیں، بلکہ دو قومی نظریئے کی تاریخی جیت تھی۔ آج ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں روایتی جنگی صلاحیت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی میں بھی خود کو مضبوط کرنا ہے۔ آرمی راکٹ فورس کمانڈ کی تشکیل نہ صرف دشمن کو ہر سمت سے جواب دینے کی صلاحیت بڑھائے گی بلکہ پاکستان کے دفاعی ڈھانچے میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہوگی۔
وزیراعظم نے قوم کو یاد دلایا کہ احتجاج کا حق سب کو ہے، لیکن گھیراؤ جلاؤ، توڑ پھوڑ اور ریاست سے بغاوت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ذاتی مفادات اور کھوکھلے نعروں کو پیچھے چھوڑ کر اجتماعی سوچ اپنائیں۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ، مگر وطن کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔
ان کا یہ موقف اس پس منظر میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ حالیہ “معرکۂ حق” میں پاکستان کی مسلح افواج نے ایک بار پھر دنیا کو دکھا دیا کہ یہ قوم اپنے دفاع میں کس قدر یک جان اور مضبوط ہے۔ دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا، مگر ہمارے جوان سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو نہ صرف منہ کی کھانی پڑی بلکہ عبرت ناک شکست اس کا مقدر بنی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے دوست ممالک چین، سعودی عرب، ترکیہ، یو اے ای، آذربائیجان اور ایران کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی۔ حتیٰ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی ذکر آیا، جنہوں نے جنگ بندی کے لیے عملی کوششیں کیں اور کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کی توقع ظاہر کی۔
یہ فتح کسی ایک دن یا ایک لڑائی کا نتیجہ نہیں تھی۔ یہ برسوں کی محنت، قربانی اور عزم کا ثمر تھی۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں مسلح افواج نے نہ صرف دشمن کے عزائم خاک میں ملائے بلکہ پاکستان کے دفاع کو ایک نئے باب میں داخل کر دیا۔ ان کے قائدانہ فیصلے اور عسکری حکمت عملی نے ثابت کیا کہ جب قیادت مضبوط ہو اور قوم متحد ہو، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔
آج کی یہ صورتحال ہمیں آزادی کے اصل مفہوم کی طرف واپس لے جاتی ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے یہ وطن اس لیے حاصل نہیں کیا تھا کہ ہم انتشار اور تقسیم کا شکار ہو جائیں۔ انہوں نے یہ خواب اس لیے دیکھا تھا کہ مسلمان ایک آزاد، خودمختار، خوشحال اور باوقار زندگی گزار سکیں۔ مگر بھارت، جو آغاز سے ہی ہمارے وجود کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھا، آج بھی ہماری سلامتی کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔
مودی سرکار کا کردار اس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے۔ 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے انہوں نے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اڑائیں بلکہ خطے میں کشیدگی کو خطرناک حد تک بڑھا دیا۔ اس کے بعد پہلگام فالس فلیگ آپریشن جیسے ڈرامے رچائے گئے، اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔
لیکن 21 اپریل سے لے کر 10 مئی تک کا عرصہ ایک نئے پاکستان کا استعارہ بن گیا۔ دشمن نے میزائل حملوں اور فضائی یلغار سے ہمیں زیر کرنے کی کوشش کی، مگر پاک فضائیہ کے شاہینوں اور افواج پاکستان کے جوانوں نے وہ کارنامے انجام دیے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ پانچ رافیل طیارے مار گرائے گئے، دشمن کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اور بھارت کو وہ سبق سکھایا گیا جو شاید وہ آنے والی دہائیوں تک نہ بھلا سکے۔
یہ کامیابی محض عسکری نہیں تھی، یہ ایک سفارتی جیت بھی تھی۔ دنیا کی بڑی طاقتوں نے پاکستان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ امریکہ کا پاکستان کی جانب جھکاؤ اور بھارت سے فاصلے اسی حقیقت کی نشانی ہیں۔ مگر یہ بھی طے ہے کہ بھارت اس صورتحال کو کبھی برداشت نہیں کرے گا اور اپنی چالوں میں مزید شدت لائے گا۔
ایسے حالات میں سب سے بڑی ضرورت سیاسی استحکام اور قومی یکجہتی کی ہے۔ سیاست کا مقصد ذاتی اقتدار یا مخالف کو نیچا دکھانا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ملک کے دفاع اور ترقی کو اولیت دینا ہی اصل سیاست ہے۔ وزیراعظم کی میثاقِ پاکستان کی پیشکش اسی سوچ کا تسلسل ہے۔ اس معاہدے کا مقصد کسی ایک جماعت کو فائدہ دینا نہیں، بلکہ پاکستان کو متحد اور مضبوط بنانا ہے۔
ہمارے سامنے تاریخ کے وہ لمحات بھی ہیں جب سیاسی انتشار نے دشمن کو موقع دیا۔ مگر آج کے حالات ہمیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ ہم ایک ساتھ کھڑے ہو کر دشمن کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ عسکری محاذ پر کامیابی حاصل کر لینے کے بعد اب سیاسی و معاشی محاذ پر یکجہتی دکھانا ہی وقت کا تقاضا ہے۔
آزادی کا جشن محض آتشبازی یا پرچم لہرانے کا