آنکھوں دیکھی کانوں سنی قیام پاکستان کے بعد پہلی عید الفطر

(شاہد بخاری)

2

 14.اگست کو یوم پاکستان کے موقع پر ہر سال ھڑ بونگ ہوتی ہے اور” پیں۔ پیں” کرنے پر کچھ لوگ احتجاج کرتے ہیں لیکن
” پیں. پاں “کرنے والے بالکل بے قصور ہیں. انہیں کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے پاکستان بنانے کا خواب دیکھا اور قائد اعظم نے اس خواب کو عملی جامہ پہنا دیا۔ ان نو جوانوں کو یہ علم ہی نہیں کہ انگریزوں کی( Divide & Rule)تقسیم کرو اورحکو مت کرو کی پالیسی کے باوجود 1857ء کی جنگ آزادی میں ہندو،مسلم، سکھ عیسائی، سب ہی شامل تھے لیکن انتقام کا زیادہ نشانہ مسلمان ہی بنے اور اپنی حماقتوں سے ابھی تک بن رہے ہیں ۔
بعد از 14 اگست 1947 کانگرس تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل رہنے پر آمادہ ھو گئی تھی لیکن مسلم لیگ نے یہ قبول نہیں کیا ،جس کی سزا کی تفصیل میاں محمد ابراہیم طاہر کی کتاب” آزادی کی قیمت” میں درج ہے۔ اس کتاب کے صفحہ 35 پر درج ہے کہ ریاست کپور تھلہ کی تینوں تحصیلیں جا لندھر،
نکود،ر تحصیل فروزپور جو زیرہ تحصیل سے ملحق تھیں اور ان تمام تحصیلوں میں مسلمانوں کی اکثریت کو باؤنڈری کمیشن نے تسلیم کر لیا تھا لیکن گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے اشارے پر ریڈ کلف نے یہ تمام علاقے کانگرس کو دے دیئے ۔
مسلمانوں کی اکثریت کے علاقوں میں ملحقہ علاقے بٹالہ، گورداس پور، اجنالہ فیروزپور، زیرہ، نکودر اور جالندھر کی تمام تحصیلیں اور قصور کی تحصیل کا بہت سا علاقہ ھندوستان کو دے دیا گیا۔
فاضل کا مکتبر، دو سوھا اور ضلع ہوشیار پور کے ان تمام ملحقہ علاقوں میں جو دفاعی نقطہ نظر سے پاکستان کے لیے بڑی اہمیت رکھتے تھے اور ان سب میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود بھارت کے حوالے کر دیے گئے
تقسیم کے مسلمہ اصو لوں کے مطابق تحصیل پٹھان کوٹ کا کچھ علاقہ بھی پاکستان کو ملنا چاہیے تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ایماء سے چھ لاکھ سکھوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر 14 لاکھ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر دیا گیا ۔
بے انصافی کی حد تو یہ ہے کہ امرتسر اور ترن تارن کی تحصیلوں میں مسلما نوں کی اکثریت کو بالکل نظر انداز کر کے ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا ۔اس غیر منصفانہ تقسیم کے بہانے بھارت سے پاکستان جانے والے مہاجرین کے قتل عام کا لائسنس سکھوں اور ہندوؤں کو دے دیا گیا۔
ریڈ کلف نے فیروز پور کے متعلق جو فیصلہ دیا وہ اس کے اپنے اصولوں کے بالکل خلاف جاتا ہے۔ جہاں اس نے” مسلم اکثریت سے ملحق” کے اصول سے بالکل انحراف کیا تھا۔ اس نے ہندوؤں کے مفاد کے مد نظر بے اصولی برت کر ،اس تمام علاقے کو مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا ۔
تحصیل پٹھان کوٹ اور بٹالہ، ہندوستان کو صرف کشمیر کا راستہ دینے کی خاطر، اس کے حوالے کر کے انگریزوں نے کشمیری مسلمانوں کی شہ رگ کاٹ کر دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان دائمی فساد کی بنیاد رکھ کر، پاک و ہند کو اسلحے کی منڈی بنا کر، دونوں ملکوں کے عوام کا کچومر نکال رکھا ہے۔ :
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
قائد اعظم نے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے اپنے عہدے کا جب حلف اٹھایا تب ھی سے سکھوں نے ہندوؤں کی شے پر وحشت و بربریت اور درندگی کا بازار گرم کر دیا۔
18 اگست کو مشرقی پنجاب کی عید گا ھو ں اور گلی کوچوں میں نہتے مسلمانوں کے خون سے ھو لی کھیلی گئی۔
18 اگست 1947 کو قیام پاکستان کے بعد پہلی عید الفطر کے موقع پر بہت سی عید گاہوں میں نماز کی حالت میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید یا زخمی کیا گیا۔ چاند رات کے 10 بجے چار گاڑیاں جا لندھر میں مسلمانوں کے محلے میں چکر لگانے لگیں ۔بظاہر ان میں پولیس اور حفاظتی فوج کے جوان نظر اتے تھے لیکن دراصل یہ منظم تخریب کا رتھے ،یہ سب آتش زدگی کے ماہرین تھے۔ پہلی گاڑی میں پٹرول چھڑکنے والا پمپ لگا ہوا تھا جو چیدہ چیدہ مکانوں کے دروازوں اور کھڑکیوں پر پیٹرول کی دھار مار کر آگے بڑھ جاتی تھی۔
دوسری گاڑی میں چار مسلح غنڈے سوار تھے جو آتش گیر مادہ پھینک کر اور آگ بھڑکا کر تیزی سے آگے نکل جاتے تھے۔ تیسری گاڑی میں مشین گنوں سے مسلحہ لوگ بیٹھے تھے جو مزاحمت کرنے والوں یا آگ سے بچ کر بھاگنے والوں پر فائرنگ کرتے تھے۔
چوتھی گاڑی میں اصلی پولیس کے مسلحہ سپاہی بیٹھے تھے، جس گھر سے بھی تخریب کاروں پر فائر ہوتا تو یہ فورا مزاحمت کرنے والوں کو گرفتار کر کے ان کا تمام اسلحہ چھین لیتے۔گویا پولیس کا کام مسلمانوں کو غیر مسلح کر کے اور ان کے ھاتھ پاؤں باندھ کر بے رحم اور جلاد صفت ہندوؤں اور سکھوں کے آگے لقمہ تر بنا کر پھینکنا رہ گیا تھا(ایسے ھی ملتے جلتے واقعات دیگر تحصیلوں میں بھی ھوتے رھے)
ان گاڑیوں کے علاوہ سکھوں اور ہندوؤں کے بہت سے گروہ بھی ہر قصبے میں قتل و غارت گری، لوٹ مار اور آتش زدگی وغیرہ میں مصروف رہے۔ ان میں سے ایک گروہ کو باقاعدہ فوجی تربیت دے کر ملٹری کی وردیاں پہنائی گئی تھیں اور مسلح کیا گیا تھا ۔جہاں بھی انہیں کوئی غیر مسلح مسلمان نظر اتا یہ اس پر گولی چلا دیتے تھے۔
ھر قصبے میں اس قسم کی غنڈہ گردی سے مسلما نوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے اور وہ خوف زدہ ھو کر اپنے بھرے پرے گھروں کو چھوڑ کر پناہ اور حفاظت کی تلاش میں مارے مارے چھپتے چھپاتے پھر رہے تھے۔ ایسے مسلمانوں کو باحفاظت نزدیکی کیمپ میں پہنچانے کا لالچ د ے کر جعلی فوجی جالندھر میں بلوائیوں کے ہیڈ کوارٹر منڈی فنٹن گنج لے جاتے جہاں ان کو جمع پونجی سے محروم کر کے شہید کر دیا جاتا خواتین کو بےآبرو کیا جاتا(جالندھر اور انبالے والے روح فرسا واقعات راقم نے سرگودھا کے چوٹی کے وکیلوں چودھری علی محمد اور میر مظاھر حسنین سے بھی سنے ھیں)
82 ڈبوں پر مشتمل ایک سپیشل ٹرین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.