کالا ڈھوڈا اور بارش کی دعا

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

17

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی سوچوں میں گم ہو، اور اچانک ماضی کا کوئی منظر پھیکی سی روشنی میں، جیسے پرانے فلمی فیتے کی ایک خاموش جھلک—دل و دماغ کو گھیر لے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
میں بیٹھے بیٹھے بارش کی خواہش سوچ رہی تھی۔ کھڑکی کے اس پار کا ساکت آسمان، بادلوں سے خالی اور چپ۔ یکایک ایک تصویر آنکھوں کے سامنے تیرنے لگی—گرمیوں کی وہ سہ پہر جب محلے کے بچے گلیوں میں شور مچاتے پھرتے تھے، اور میں ایک بچی کی طرح کھڑکی سے جھانک کر وہ منظر دیکھا کرتی تھی… مگر اُس میں شریک نہ ہو پاتی تھی۔

مجھے یاد ہے، وہ دن جب آسمان مسلسل کئی روز سے صاف رہتا، سورج جیسے زمین کو چھو لینے کو بےتاب ہوتا، اور ماں کی دعاؤں میں بارش کے الفاظ بڑھ جاتے۔ ایسے میں ہمارے محلے کے بچے ایک خاص کھیل کھیلتے—نہیں، یہ صرف کھیل نہیں ہوتا تھا، بلکہ ایک دعا، ایک رسم ہوتی تھی۔
وہ کسی ایک لڑکے کو پکڑتے، اور اُس کے چہرے پر توے کی کالک مل کر اُسے “کالا ڈھوڈا” بناتے۔

احمر… ہاں، وہی شریر سا، آنکھوں میں شرارت کی چمک لیے بچہ، اکثر کالا ڈھوڈا وہی بنتا تھا۔ نہ روٹھتا، نہ شرماتا، الٹی قمیض پہنے، ہاتھ میں پلیٹ لیے وہ محلے بھر کے دروازوں پر جاتا، اور اُس کے پیچھے پیچھے بچوں کی ایک لمبی قطار گاتی:

کالا ڈھوڈا مینھ منگدا۔۔۔
روپیے تِیہ منگدا۔۔۔
اللہ جی مینھ وسا دے۔۔۔
کھکھڑیاں پُھل کھلا دے۔۔۔

میں اُس منظر کو چھپ کر دیکھتی، کھڑکی کی جالی کے پیچھے سے۔ نہ جانے کیوں کبھی ہمت نہ ہوئی اُن کے ساتھ چلنے کی، شاید تربیت کی حدود تھیں یا اپنی شرمیلی طبیعت۔ لیکن دل… دل تو ہر بار اُن کے ساتھ بھیگتا، ہنستا، مانگتا۔

دروازوں سے کبھی پیسے ملتے، کبھی گندم۔ اور پھر وہ سب بچوں میں برابر برابر تقسیم ہوتا۔ محض چیزیں نہیں بانٹی جاتیں، وہ لمحے بانٹے جاتے تھے… وہ خوشیاں جو آج کے ماڈرن بچپن سے کہیں زیادہ خالص اور مہربان تھیں۔

اور پھر جب آسمان پر بادل جھومنے لگتے، ہوائیں نمی سے بوجھل ہو جاتیں، اور بارش واقعی برسنے لگتی… تو محلے کی وہی قطار، وہی بچے، خوشی سے سرشار ہو کر گاتے:

“کالیاں اٹاں، کالے روڑ۔۔۔
مینہ ورسےبھئی زور و زور۔۔۔”

ایسا لگتا تھا جیسے اُن کے گیت، اُن کے قہقہے، آسمان کو چھو رہے ہوں۔ جیسے قدرت نے اُن کی آواز سن لی ہو، اور اب جواب میں موسلا دھار بارش اُن پر برس رہی ہو۔

احمر سب سے آگے ناچتا، کالک سے سجے چہرے پر بارش کی بوندیں گرتیں تو جیسے آسمان اس کی معصوم پیش کش کو قبول کر لیتا۔
اور میں اپنی کھڑکی کے پیچھے، ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے، خاموشی سے گواہ بنتی… ایک ایسی دعا کی، جس کا حصہ میں نہ ہوتے ہوئے بھی بن چکی تھی۔

اب جب بادل آسمان سے روٹھے ہوئے لگتے ہیں، اور بارش محض موسمی پیش گوئیوں کا حصہ بن کر رہ گئی ہے، دل چاہتا ہے کہ وہ بچپن کی سادہ سی دعا ایک بار پھر گلیوں میں گونجے۔
کوئی ننھا “احمر” پھر نکلے، کالک لگائے، پلیٹ تھامے، اور ہم سب، چاہے اس بار بھی صرف کھڑکی کے پیچھے سے سہی، اس دعا میں شامل ہو جائیں۔

کیونکہ کچھ مناظر عمر بھر ہمارے اندر زندہ رہتے ہیں،
اور کچھ دعائیں… کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.