*”خواجہ آفتاب اور اُن کی تخلیقات “*

_فاروق حارث العباسی_

0

خواجہ آفتاب حسن سے میری شناسائی آج سے قریباً بیس برس قبل روزنامہ ”اساس“ کے آفس میں ہوئی۔پرکشش چہرے والا خوبرو یہ کشمیری نوجوان جو اخلاقی اعتبارسے بھی مجھے دوسروں سے کچھ الگ محسوس ہوا، جلد ہی دوستی کے مضبوط بندھن میں بندھ گیا۔عمر اور تجربے میں سینئر ہونے کے باعث خواجہ صاحب نہایت ادب واحترام اور محتاط انداز میں گفتگو کرتے ، غالباً یہ اُن کی تربیت کا اثر ہی تھا وگرنہ آج کے دورپُرفتن میں کون کسی کا احترام کرتا ہے ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی بے تکلفی میں تبدیل ہوتی گئی لیکن اس بے تکلفی میں بھی انہوں نے ادب کا پہلو ہاتھ سے نہ جانے دیا یہی وجہ تھی کہ ہماری دوستی مضبوط بنیادوں پر استوار تاحال قائم ہے۔
خواجہ صاحب عرصہء دراز سے اخباری خبروں تک محدود رہے۔ سب ایڈیٹر ،سینئرسب ایڈیٹر اور پھر نیوز ایڈیٹر ،چیف نیوز ایڈیٹر۔ “روزنامہ دن“ میں بھی بہت بہتر طور پر انہوں نے اپنے فرائض انجام دیے ۔انہی دنوں میں بھی وہاں بطور کالم نگار، فیچر رائٹر اور محقق کام کر رہا تھا لیکن میں نے اتنے عرصہ میں خواجہ صاحب کو کبھی کالم یا فیچر وغیرہ لکھتے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی ان کا کوئی مضمون میری نظروں سے گذرا لہٰذا یہی ایک گمان تھا کہ خواجہ صاحب کا شعبہ نیوز ہی ہے جس میں وہ خاصی مہارت رکھتے ہیں ۔لیکن پھر اس دن میری حیرت میں خاصا اضافہ ہوا جب خواجہ صاحب اپنی کتاب”جگ بیتیاں“ کا مسودہ میرے پاس لائے کہ جناب اس کتاب پر چند سطور لکھ دیں۔میں نے پوچھا کس کی کتاب ہے ؟ کہنے لگے میں نے لکھی ہے ۔ میری حیرت بھری نظریں کچھ وقت کے لیے اُن کے سرخ وسفید چہرے پر جم گئیں ۔ اس لیے کہ اتنے سالوں میں کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں تھا کہ اُن کا کوئی مضمون میری نظروں سے گذرا ہو پھر اچانک اور ایک دم پوری کتاب! حیرت تو ہو گی ہی۔ بہر کیف ! میں نے یہ کہہ کر مسودہ رکھ لیا کہ پڑھنے کے بعد ہی کچھ کہہ سکوں گا اور یہ فقرہ اس لیے میری زبان سے ادا ہوا کہ مجھے قطعی یقین نہیں تھا کہ خواجہ صاحب اردو ادب پر بھی کوئی گرفت رکھتے ہیں ۔ لیکن پھر جوں جوں میں کتاب کا مسودہ پڑھتا گیا توں توں میری حیرت میں اضافہ بھی ہوتا گیا ۔ ناقابل یقین حد تک تحریر اس قدرجامع، پختہ اور اسلوب سے پُر تھی جس کا میں گمان بھی نہیں کر سکتا تھا چناں چہ میں پڑھتا ہی چلا گیا۔ رات ایک بجے تک میں پوری کتاب پڑھ چکا تھا اور سب سے اہم بات یہ کہ مجھے کسی قسم کی تھکاوٹ کا کوئی احساس تک نہ ہوا حالاں کہ اُن دنوں میری طبیعت بھی کچھ ناساز تھی ۔
تحریر میں اگر چاشنی ہو، روانی ہو، لفاظی ہو، اسلوب ہو، موضوع دلچسپ ہو اور اس کی دلچسپی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے والی ہر سطر نے خود کو برقرار رکھا ہو تو یقینا قاری ان موضوعات کی بھول بھلیوں میں نہ صرف کھو جاتا ہے بل کہ اُس دنیا میں جا نکلتا ہے جس وہ مطالعہ کر رہا ہو۔ خواجہ آفتاب حسن کی شخصیت کا یہ ایک نیا اور الگ روپ تھا جو میرے سامنے تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خواجہ صاحب کی ذات کی گہرائی میں چھپی و دبی ہوئی ادبی خوبیاں اب ظاہر ہونے لگیں اور اسی اثناء میں ان کی ایک اور کتاب”فنکاریاں“ منظرعام پر آگئی۔ یہ بھی اپنی طرز کی ایک الگ کتاب تھی۔ موضوع یا عنوان کے اعتبار سے مزاحیہ دکھائی دیتی تھی لیکن خواجہ صاحب نے ہر کردار کو نہایت ادبی مہارت کے ساتھ جس طرح اُجاگر کیا اُس نے ان کرداروں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ دونوں کتب دو مختلف زاویوں پر مشتمل تھیں جو اُن کی خداداد صلاحیتوں کونمایاں کر رہی تھیں۔
خواجہ آفتاب حسن خوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ خوش طبعی و بذلہ سنجی میں بھی اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں اور ظرافت توان کی فطرت میں شامل ہے ہی ۔غالباً یہی وجہ ہے کہ مزاح نگاری میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے ۔ ان کی پہلی کتاب جس کا تذکرہ مندرجہ بالا سطور میں کر چکا ہوں، انہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ساتھ اپنے چند دوستوں کا نقشہ جس ظرافت آمیزی کے ساتھ کھینچا ہے، اُس میں مجھے معروف طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی جھلک نمایاں دکھائی دی۔ یوسفی صاحب نے اُس دور کے معروف مزاح وافسانہ نگار رشید احمد صدیقی سے متاثر ہو کر مزاح نگاری کا آغاز کیا اور شہرت پائی۔ ان کے مزاحیہ مضامین کے تین مجموعے شائع ہوئے۔ ایک ”چراغ تلے اندھیرا“ دوسرا ”خاکم بدہن “ اور تیسرا ”زرگشت“ جس میں سے میں ”چراغ تلے اندھیرا“ کا مطالعہ کر چکا تھا اور جب خواجہ آفتاب کی کتاب ”جگ بیتیاں“ کے چند گوشے میری نگاہ سے گذرے تو مجھے اُن کی تحاریر میں علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل مشتاق احمد یوسفی صاحب کا رنگ دکھائی دیا۔ یہاں پر ایک بات اور بھی عیاں ھوتی ھے کہ ذہن کی وسعتوں کا ھونا کسی ڈگری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
خواجہ آفتاب حسن کی تحاریر میں مجھے ہر مقام پر ایک جدت دکھائی دی اور جو سب سے بڑی خوبی میں نے اُن کی تحاریر میں محسوس کی وہ اُن کا جداگانہ انداز تحریر ہے یعنی تینوں کتب میں انہوں نے جن الفاظ کو ترتیب دیا وہ سب کے سب الگ و منفرد اسالیب کے ساتھ ہیں اور یہ وہ طرز طریق ہے جو میں نے مشتاق احمد یوسفی کی تحاریر میں پایا۔
افسانہ نگاری کی طرف رجوع کیا تو خواجہ صاحب نے اس میں بھی کمال کر دکھایا۔ تخیلات و تصورات کی دنیا کو حقائق کی دنیا میں تبدیل کر دینے کو یقینا” فن جادوگری ہی کہا جاسکتا ہے جسے خواجہ آفتاب حسن نے باکمال انداز میں اپنی تیسری کتاب”خالی سڑک “ کے نام سے ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس افسانوی مجموعے میں پہلا افسانہ ”موت کا فرشتہ “ کی آخری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.