سیاسی جماعتوں کا انتخابی منشور اور عملی اقدامات

اورنگزیب اعوان

6

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے موقع پر اپنے اپنے سیاسی منشور کا اعلان کرتی ہیں. جس میں ملک پاکستان کو غربت کی دلدل سے نکال کر ترقی کی بلندیوں پر پہنچانے کے ساتھ ساتھ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے خاتمہ کے عہد و پیما کیے جاتے ہیں. جن کو سن کر عام آدمی تصور کرتا ہے. کہ اگر اس جماعت کو ملک میں حکومت کرنے کا موقع دیا جائے. تو یقیناً ملک کی تقدیر بدل جائے گی. مگر جیسے ہی کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے. اس کے منشور اور عملی اقدامات میں زمین و آسمان کا فرق دیکھائی دیتا ہے. حکومتی پالیسی میں ملکی ترقی، بے روزگاری، مہنگائی، غربت کے خاتمہ بارے کوئی سنجیدہ کاوش نظر نہیں آتی. 76 سالوں سے ملک پاکستان میں متعدد سیاسی جماعتوں کو حکومت سازی کا موقع میسر آیا ہے. ان کے انتخابی منشور ہر بار دلفریب و دلکش ہی ہوتے ہیں. مگر حکومت میں آتے ہی یہ اپنے انتجابی منشور کو پس پشت ڈال کر فضول کاموں میں مصروف عمل ہو جاتیں ہیں. جس کی وجہ سے ملک و قوم کی تقدیر بدل نہیں پاتی. بلاشبہ ہر سیاسی جماعت میں ذہین اور قابل لوگوں کی کمی نہیں. مگر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل نہیں کیا جاتا. حکومت میں آتے ہی چاپلوسی کرنے والے لوگوں کو اہم ترین عہدوں پر تعنیات کر دیا جاتا ہے. یہ چاپلوسی کرنے والے ہر دور حکومت میں ہی شامل ہو جاتے ہیں. جس کی وجہ سے انتخابی منشور بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے. آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے سیاسی منشور پر عمل درآمد کیا ہوتا. تو آج ملک پاکستان جنت النظیر کا منظر پیش کر رہا ہوتا. یہ سب کچھ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور اور عملی اقدامات کے تضاد کو ظاہر کرتا ہے. کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے انتجابی منشور پر پچاس فیصد ہی عمل درآمد کر لے. تو ملک پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی. عوام ہر بار اسی امید پر ووٹ دیتی ہے. کہ شاید اب کی بار ان کے حالات بہتر ہو جائے. مگر سوائے مایوسی کے ان کے مقدر میں کچھ نہیں آتا. ہمارے ہاں پالیسی سازی میں تسلسل بھی نہیں. ہر نئ حکومت پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو یہ کہہ کر بند کر دیتی ہے. کہ اس کے ذریعہ سے کرپشن کی جا رہی تھی. پاکستانی عوام گزشتہ 76 سالوں سے اس عذاب کو برداشت کر رہی ہے. پتہ نہیں کب ایسی پالیسی بنے گی. جو ہر دور حکومت میں جاری و ساری رہے. اور اس کے ذریعہ سے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہو سکے. پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں یلو کیپ ٹیکسی کی سیکم شروع کی. جس سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو باعزت روزگار کا موقع میسر آیا. پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس کو کرپشن کا نام دیکر بند کر دیا. پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا. جس کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ختم کر دیا. اور اس کی جگہ انصاف ہیلتھ کارڈ، لنگر خانے، پناہ گاہیں جیسے منصوبوں پر کام کیا. پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے نوجوان طالب علموں میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے. پاکستان تحریک انصاف نے اس کو بھی بند کر دیا. یہ سلسلہ ہر دور حکومت میں چل رہا ہے. کہ دوسرے کے اچھے کاموں کو کرپشن زدہ قرار دے کر ان کا قلع قمع کر دیا جائے. کاش تمام سیاسی جماعتیں عوام کو بھکاری بنانے کی بجائے. ان کو باعزت روزگار مہیا کرے. بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام،انصاف ہیلتھ کارڈ، لنگر خانے، پناہ گاہیں جیسی سکیمیں قوم کو فقیر بننے کا درس دیتی ہیں. اگر اسی پیسہ کو ملک کے مختلف علاقوں میں انڈسٹری لگانے کے لیے صرف کیا جائے. تو ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ یقینی ہو جائے گا. لوگ باعزت طریقہ سے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے گے. عوام کو لائنوں میں لگا کر روٹی دینے کی بجائے. اسی طرح سے زکوۃ کے پیسوں سے تین تین ہزار دینے سے بہتر ہے. کہ ان کے علاقوں میں کارخانے لگائے جائے. تاکہ وہ محنت مزدوری کرکے رزق حلال کما سکے. اس سے ملک بھی ترقی کے راستہ پر گامزن ہو گا. اور عوام کی زندگیاں بھی بدل جائے گی. اگر حکومتوں نے عالمی اداروں کا دست راست بن کر ہی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا ہے. تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے. ملک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایک مستقل سیاسی لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے. جس کے تحت کوئی بھی قومی و علاقائی ترقیاتی سکیم کو محض اس وجہ سے بند نہیں کیا جائے گا. کہ یہ دوسری حکومت نے شروع کی تھی. عوام سیاسی جماعتوں کو ووٹ اس لیے دیتی ہے. کہ وہ ان کے مسائل کو کم کرے. ناکہ ان میں اضافہ کا سبب بنے. ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور اور عملی اقدامات میں یکسوئی ہونی چاہیے. انہیں اپنے کیے گئے وعدوں پر یکسوئی سے عمل درآمد کرنا چاہیے. امریکہ، یورپ، آسڑیلیا ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اس لیے شامل ہیں. کہ وہاں تھینک ٹینک بنے ہوئے ہیں. جو ملکی ترقی کے لیے پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں. اور پھر ان کی مانیڑنگ کرتے ہیں. حکومتیں بدلتی رہتیں ہیں. مگر ان ترقیاتی منصوبوں پر عمل جاری رہتا ہے. جس کی وجہ سے قوم کا پیسہ ضائع نہیں ہوتا. ہمارے ہاں اس چیز کا فقدان ہے. جس کی وجہ سے ہم آج تک ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہے. ہمیں اپنی عوام کو دلفریب، دلکش نعروں کی بجائے. عملی اقدامات سے کچھ کر کے دیکھانا چاہیے. نوجوان، طالب علم، محنت کش، سبھی حیران پریشان ہیں. کہ آخر ہمارے ملک میں کس چیز کی کمی ہے. جو ہم ترقی نہیں کر پا رہے. ہم لوگ سیاسی گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں. ہمیں ایک قوم بن کر سوچنے کی ضرورت ہے. سیاست چلتی رہے گی. پہلے ملک و قوم کی بھلائی اور بہتری کے لیے کچھ کرنا ہوگا.

میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.