جشن وحید الزماں

4

منشا قاضی حسب منشا

اٹھارویں اور 19ویں صدی میں مشرق و مغرب میں بڑے بڑے انسان پیدا ھوئے اور بیسویں صدی انہیں کھا گئی 21ویں صدی میں ہمیں دور دور تک کوئی قائد و اقبال نظر نہیں آتا جن کے افکار و نظریات کی روشنی آج بھی ہمارے سینوں میں عزم و ہمت کی قدیلیں فروزاں کر رہی ہے اور جن کی فکر کے بغیر پورا پاکستان دور دور تک ایک صحرا ہی صحرا ہے جن جلیل القدر عبقری شخصیات کو ہم نے تاریخ میں پڑھا تھا ان مشاہیر میں ایک عظیم علمی شخصیت برگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق کی ذات گرامی اس گئے گزرے دور میں دکھائی دیتی ہے تو بڑا تعجب ہوتا ہے کہ ایسی عبقری شخصیت آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے لاتعداد صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے وہ اپنی ذات میں پوری ایک تحریک، ایک انجمن، ایک جماعت اور علم و فن کا انسائیکلوپیڈیا اقبال، رومی، سعدی شیرازی اور حافظ کی صدائے بازگشت ہیں ۔ عربی، فارسی، اردو ، انگریزی اور پنجابی ساری زبانوں پر عبور حاصل ہے ۔ عربی بولتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی عرب حجاز سے رخت سفر باندھ کر لاہور آ نکلا ہو ، فارسی میں سعدی کی شیرینی اور حافظ کی رنگینی مزہ دیتی ہے ، حافظ و سعدی کی رنگینی کے حسین امتزاج سے جادو آفرینی پیدا کرتے ہیں اردو آپ کے سامنے اس آرزو میں کھڑی رہتی ہے کہ آپ اسے سلک معنی میں پروئیں اور آپ کے رشتہ ء افکار سے مل کر وہ بالا و بلند ہو جائے ، انگریزی خود درخواست گزار رہتی ہے کہ وہ وحید الزماں طارق کے اعجاز نطق کے بوسے لے، پنجابی آپ کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہے برصغیر پاک و ہند میں ڈاکٹر وحید الزماں طارق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ زبان فارسی کے پہلے شاعر ہیں اقبال و رومی کے حافظ ہیں گزشتہ روز کاروان فکر پاکستان کے زیر اہتمام اقبال کے یوم ولادت کے موقع پر جشن وحید الزماں کی پر شکوہ تقریب پروفیسر مظفر عباس سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کی زیر صدارت منعقد ہوئی ۔ جشن وحید الزماں کا خیال میرے خیال میں جناب اعظم منیر کے منصوبہ ساز ذہن کے بطن سے جنم لیا ہو گا اور پرنس اقبال گورایا نے اس خیال کو پیکر محسوس میں ڈھالا ھو گا پرنس اقبال گورایا چیئرمین بانی کاروان فکر پاکستان ایوان اقبال یو اے ای، بے شمار محاسن کا مجموعہ ہیں وہ نظر بہ ظاہر ایک انسان ہیں لیکن اپنی ذات میں پوری انجمن اور پوری جماعت ہیں سمندر پار پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں اور آج بھی ان کا یہ مشن جاری و ساری ہے وہ ایک لحظہ بھی فارغ نہیں بیٹھتے کوئی نہ کوئی منصوبہ ان کے ذہن کے بطن میں جنم لیتا رہتا ہے ۔ مقررین نے ملت اسلامیہ کے محسن برگیڈیئر وحید الزماں طارق کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ان میں موٹیویشنل بین الاقوامی شہرت یافتہ سپیکر جناب راؤ محمد اسلم خان ، جناب اعظم منیر ، ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان، پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال محقق دانشور ادیب نے یہ عبدالوحید طارق کی ادبی علمی فکری اور تحقیقی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ اس دور میں دور دور تک اس بائے کا کوئی عبقری ہیرو نظر نہیں اتا علامہ اقبال نے تو واضح طور پر کہہ دیا تھا پھر نہ اٹھا کوئی رومی عجم کے لالا زاروں سے وہی اب و گلے ایراں وہی تبریز ساقی

عزیزم زید حسین جواں سال اقبالی دانشور نے نقابت کے فرائض جس خوبی سے ادا کیئے اس کی صدائے بازگشت گند بے در سے آتی رہے گی تلاوت قران کریم اور نعت رسول مقبول کے بعد آپ نے حفظ مراتب کا پورا خیال رکھا۔ سرگودھا سے آئے ہوئے مہمان مقرر محترم جناب ہارون رشید تبسم کی فکر انگیز گفتگو کی جستجو میں حاضرین کی آرزو جاگ اٹھی وہ بولتے نہیں موتی رولتے ہیں صاحب صدر پروفیسر مظفر عباس کا خطبہ تو شاید پانچ چھ صفحات پر مبنی ہو ، مگر جناب ہارون تبسم نے 40 صفحات پر برگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق کے اوصاف حمیدہ اور ان کی علمی فکری صلاحیتوں کا احاطہ کیا ہے لکھا ہوا کاغذ ان کی جیب میں تھا اور انہوں نے اختصار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فارسی زبان کے خاتمے کے لیے انگریز کی سازش کامیاب ہوگئی انہوں نے کہا کہ انگریز نے فارسی زبان کو حکمرانوں کی زبان قرار دیا تھا اور انہوں نے اس کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی اور یہاں تک ہماری تہذیب ہمارا تمدن ہماری اعلیٰ روایات کو بھی انہوں نے فنا کے گھاٹ اتار دیا موٹیویشنل سپیکر جناب راؤ محمد اسلم خان کی زندگی کے کسی بھی موڑ پر حاصل ہونے والی کامیابی کے پیچھے برسوں کی محنت شاقہ کار فرما ہے اگر ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو اضطراب ترقی کا باپ ہے اور راؤ محمد اسلم خان مطمئن نہ ہونے والی شخصیت ہیں اور وہ ہر روز ایک نئی شان اور نئی آن اور نئی بان سے روز و شب منور کرتے رہتے ہیں آپ برگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزمان طارق کے شاگردوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں اس لئیے زندگی کے موڑ پر راؤ محمد اسلم خان نے یوں ہی کامیابی حاصل نہیں کر لی اس کے پیچھے راؤ محمد اسلم خان کی محنت شاقہ کار فرما ہے اور انہوں نے کامیابی بھی زندگی کے بازار میں فروخت ہوتی ہوئی خریدی ہے لیکن اسے وہی شخص خرید سکتا ہے جو اس کی قیمت ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو شکست نہ کھانے والا ارادہ، پریشان نہ ہونے والا خیال، اور ختم نہ ہونے والی جدوجہد یہ کامیابی کے ضامن ہیں اور راؤ محمد اسلم علم کے حصول کے لیے اور اقبال کو سمجھنے کے لیے ہر روز سیکھنے کے عمل میں موجود رہتے ہیں عالم علم کے سہارے سے اور جاہل سازش کے سہارے سے کامیابی حاصل کرتا ہے۔

عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو

کچھ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.