دولت کی حفاظت

15

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
ہمارے اباجی مرحوم کہا کرتے تھے کہ دنیا میں دولت اور زق کی خواہش کسے نہیں ہوتی اکثر پوری زندگی لوگ مادی دولت اور جائداد جمع کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اسے ہی اپنی خوشی کا ذریعہ اور کامیابی سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت انسان کی اصل دولت سونے چاندی یا زمین و جائداد سے نہیں ناپی جاتی بلکہ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دوسروں کو کیا دیتا ہے اور دوسروں کے لیے ایثار کا کس قدر جذبہ رکھتا ہے ؟ کیونکہ یہ سب اس دنیا میں رہ جانے والی چیز یں ہیں ۔اصل دولت اور جائداد وہ ہے جو یہاں بھی ساتھ رہے اور آپ اپنے ساتھ لے کر بھی جائیں گے ۔جب ہم لوگوں میں محبتیں ،گرم جوشی ،ایثار ،خیر سگالی اور حکمت بانٹتے ہیں تو دراصل ہم ان کی مدد ہی نہیں کر رہے ہوتے بلکہ خود کو بھی ایسی دولت سے مالا مال کرتے ہیں جو دنیا میں تو کام آتی ہی آتی ہے بلکہ ہمارے ساتھ اس کا ثواب اور اجر آخرت تک ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ دوسرے ٔ کی چنگیر میں رکھ کر کھانے سے رزق کی برکت بہت بڑھ جاتی ہے۔دوسرے کی جیب میں پیسہ ڈال کر خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی بلکہ دینے اور ایثار کا عمل ہمیں روحانی طور پر بہتر اور مضبوط بناتا ہے ۔یہ اپنے رب کی شکر گزاری کا بہترین طریقہ ہے ۔بےشک دنیا محبت اورقربانی کے پاک جذبے سے ہی جنت بنتی ہے ۔دوسروں کے لیے ایثار اور مدد سے ہم انہیں امید ،اعتماد ،اور روشنی بانٹتے ہیں یہ دولت کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ رب تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ستر گنا بڑھتی ہے ۔ہم سوال کرتے کہ اباجی اگر انسان کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو تو وہ کیا کرے ٔ ؟ تو فرماتے سب سے قیمتی چیز جو کسی کو دی جاسکتی ہے وہ روپیہ ،پیسہ نہیں بلکہ آپ کا وقت ،توجہ ،دیکھ بھال ،ہمدردی ،میٹھا بول ،رحم ،ترس ،نیک عمل،حسن سلوک اور جانی ایثار ہوتا ہے ۔کسی کی تعریف اور حوصلہ افزائی سے جو خوشی آپ کسی کو دے سکتے ہیں وہ بڑی سے بڑی رقم دے کر بھی نہیں دی جاسکتی ہے ۔یہی چیز ہماری زندگی کو بامعنی اور بامقصد بناتی ہے ۔یہی سب چیزیں وہ دولت ہیں جو دنیا اور آخرت میں کام آتی ہیں اور یہی وہ دولت ہے جسکی حفاظت نہیں کرنی پڑتی ۔ہمیشہ ایسی قیمتی چیزیں جمع کریں جنہیں ساتھ لے کر قبر میں بھی جایا جاسکے۔اور جو چیز ساتھ نہیں جاسکتی اس کی حفاظت ہی فضول ہے ۔پیسوں او ردولت سے سکون نہیں خریدا جاسکتا بلکہ پیسہ اور دولت تو سکون چھین لیتے ہیں راتوں کی نیند اور دن کا سکون چھیں لیتے ہیں سکون کے لیے اللہ کی رضا پر راضی ہونا پڑتا ہے ۔ انسانیت کی خدمت اللہ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین راستہ ہے ۔انسانیت کی خدمت صرف کچھ اچھا کرنے سے ہی نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کے لیے کچھ برا نہ کرنا بھی اچھائی ہی ہوتی ہے ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
مشہور روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک نوجوان آیا اور عرض کی یا رسول اللہ، میں اپنے باغ کے گرد دیوار بنا رہا تھامگر درمیان میں ایک کھجور کا درخت آ گیا ہے جو میرے پڑوسی کا ہے۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے وہ درخت دے دے تاکہ دیوار سیدھی ہو سکےمگر اس نے انکار کر دیا۔ پھر میں نے اس سے درخت خریدنے کی پیشکش کی مگر وہ پھر بھی راضی نہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلانے کا حکم دیا۔ جب وہ آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نوجوان کی شکایت سنائی، اور اس شخص نے بات کی تصدیق کی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ وہ درخت نوجوان کو دے دے یا اسے فروخت کر دےمگر اس نے انکار کر دیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ درخت اسے بیچ دو اور بدلے میں تمہیں جنت میں ایک ایسا درخت ملے گا جس کے سائے میں سوار سو سال تک سفر کر سکے۔ صحابہ کرام اس پیشکش پر حیران تھےلیکن اس شخص نے پھر بھی انکار کر دیا۔ اس وقت ایک صحابی حضرت ابو الدحداح رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ اگر میں اس درخت کو خرید کر نوجوان کو دے دوں تو کیا مجھے جنت میں یہ درخت ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ہاں “حضرت ابو الدحداح نے اس شخص سے کہا کیا تم میرے باغ کو جانتے ہو؟ اس شخص نے جواب دیا: “ہاں، مدینہ میں کون ہے جو ابو الدحداح کے باغ کو نہ جانتا ہو جس میں چھ سو کھجور کے درخت، محل، میٹھا کنواں اور مضبوط دیوار ہے۔ حضرت ابو الدحداح نے کہا “اپنا یہ درخت میرے باغ کے بدلے میں مجھے دے دو۔” اس شخص نے فوراً اس سودے کو قبول کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے سامنے بیع مکمل ہوئی۔ حضرت ابو الدحداح نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوشی سے پوچھا یا رسول اللہ، کیا اب جنت میں مجھے درخت مل گیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “نہیں، بلکہ اللہ نے تمہارے پورے باغ کے بدلے جنت میں بے شمار کھجور کے باغات عطا کیے ہیں جن کا شمار ممکن نہیں ” ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”کتنے خوش نصیب ہیں ابو الدحداح کے لیے وہ باغات جو پھلوں سے بھرے ہوں گے۔” اور یہ بات کئی بار دہرائی۔ جب حضرت ابو الدحداح اپنے گھر واپس آئے تو اپنی بیوی کو باہر بلا کر کہا میں نے سارے باغ محل کنواں اور دیوار بیچ دی ہے ان کی بیوی نے پوچھا کس قیمت پر حضرت ابو الدحداح نے جواب دیا”میں نے اسے جنت میں ایک درخت کے بدلے بیچا ہے، جس کے سائے میں سوار سو سال تک چل سکتا ہے۔” ان کی بیوی نے مسکرا کر جواب دیا: “بہترین سودا ہے، ابو الدحداح! بہترین سودا ہے ۔ (ماخذ: مسند امام احمد، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم)
لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کا اتنا بڑا اجر اور ثواب یہ انسانی ایثار کی ایک بہت بڑی مثال ہے ۔ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ “اگر آپ کی ذات سے دوسروں کو فائدہ ملتا رہے اور آپ کی ذات سے لوگوں کو کسی قسم کا نقصان ،زحمت یا تکلیف نہ ہو ئی تو میں گارنٹی دیتا ہوں کہ نہ صرف دنیا آپ کی ہے بلکہ رب بھی آپ کا ہے ۔”کسی کی راہ سے کانٹے یا پتھر اٹھا دینے سے بڑا صدقہ اور کیا ہو سکتا ہے ۔ورنہ راہوں پر پتھر اور کانٹے نہ بچھانا بھی اچھائی ہوتی ہے ۔حکیم لقمان نے کہا “میں نے زندگی میں تین سو سال مختلف دواوں سے لوگوں کا علاج کیا مگر طویل تجربے کے بعد میں نے سیکھا کہ انسان کے لیے سب سے بہترین دوا محبت اورعزت ہے ۔کسی نے پوچھا کہ اگر یہ بھی اثر نہ کرۓ تو ؟ وہ مسکراۓ اور بولے اس دوا کی مقدار بڑھا دو ۔ ” محبت اور عزت دینے کا سب سے بہترین طریقہ ہے کہ لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کی جاۓ ان میں خوشیاں بانٹیں ان کی مشکلات دور کریں ۔کسی چہرے پر آپ کی وجہ سے آنے والی مسکراہٹ آپ کے لیے بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی جبکہ کسی کی دل آزاری یا تکلیف آپ کا بھی سکون چھیں لیتی ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی دولت سکون ہوتا ہے ۔اپنے سکون کی اس دولت کی حفاظت کریں اور بانٹتے رہیں کیونکہ سکون بانٹنے سے بڑھتا ہے ۔انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کی زندگی ہوتی ہے جو اسے صرف ایک بار ملتی ہے ۔اسے دنیا میں اس طرح گزارنا چاہیے کہ یہ قیمتی اثاثہ تاریخ میں بھی محفوظ رہے اور جب اس دنیا سے رخصت ہورہا ہو تو وہ کہہ سکے کہ میری ساری زندگی میری ساری طاقت میری ساری صلاحیت دنیا کے بہترین مقصد “دکھی انسانیت کی خدمت “کے لیے وقف ہوئی ہے ۔یہ انسان کے اس قیمتی اثاثے اور دولت کی بہترین حفاظت ہوتی ہے جسے ہم زندگی کہتے ہیں ۔مولانا حالی ؒ فرماتے ہیں ۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آۓ دنیا میں انساں کے انساں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.