درخت ہیں کہ بخت ہیں

42

عالمی موسمیاتی جریدے نے پاکستان کے گرم ترین علاقے بلوچستان پنچاب اور سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں معمول سے زیادہ مقامی پھلدار درخت نہ لگائے گئے تو یہ علاقے آئندہ 7 سال بعد رہنے کے قابل نہیں رہے گے اور پارہ 57 تک جانے کا قوی امکان ہے۔
ان تینوں صوبوں کے ساتھ ساتھ اس بار KPK میں بھی گرمی کا تناسب پہلے سے زیادہ ہے اس لیے چند پرفضا مقامات کو چھوڑ کر پورے پاکستان کو اس سلسلے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ ٹمپریچر 42 سے بڑھ جانا کسی بھی علاقے میں قدرت کی طرف سے الارم ہے۔
آج سے چالیس سال پہلے کثیر مقامات پر درختوں کے جھنڈ اور جنگلات ہوتے تھے۔ ہر چھوٹے بڑے گھر میں کم از کم ایک یا دو پھلوں کے درخت عام تھے۔ پہاڑ درختوں سے اٹے نظر آتے تھے۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی۔ ترقی نے آسائشوں کو جنم دیا۔ آسائشوں کے حصول کے لیے ہر طرف دولت کی دوڑ شروع ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پراپرٹی ڈیلنگ کا بزنس رواج پکڑنے لگا۔ درخت فروخت ہونے لگے۔ زمینیں پلاٹوں اور مارکیٹوں کی نذر ہونے لگیں اور پیسے کی دوڑ میں یہ انتہائی قیمتی سرمایہ ہم سے روٹھنے لگا۔ اس کیفیت کو شاعر احمد عرفان یوں بیان کرتے ہیں کہ:

میرے اشجار عزادار ہوئے جاتے ہیں
گاؤں کے گاؤں جو بازار ہوئے جاتے ہیں

جب اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتا ہوں تو بیری، بوہڑ، شہتوت اور نہ جانے کون کون سے درخت عام تھے۔ ہر طرف ہریالی، ستھری فضا، پرندوں کی بولیاں، پینگیں، گرمیوں میں ٹھنڈی چھاؤں اور دلفریب مناظر کی بہتات تھی۔ جب سے درخت نایاب ہوئے، پہاڑ ننگے ہوئے تو جیسے پرندے ہم سے روٹھ گئے، موسم بےموسمے ہوگئے، ساون پھیکے بلکہ بوجھل ہو گئے اور ہوائیں مصنوعی ہو گئیں۔ آج کے انسان نے اپنی کم علمی اور لالچی طبیعت کے باعث آکسیجن کے خزانے کو کم کر کے کاربن ڈائی اکسائیڈ کے مہلک اثرات بڑھا دیے۔ لکڑی کے ایندھن سے اوزون کو خستہ کر کے سورچ کی مہلک شعاعوں کو جلد کی بیماریوں اور گرمی کی شدت کی وجہ بنا دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم آسائشوں کے ساتھ زندہ ہیں مگر زندگی کی رعنائیاں اور صحتیں ہم سے روٹھ چکی ہیں۔
میرے بھائیو بزرگو! ابھی بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا۔ اگر ہم ہوش کے ناخن لیں۔ شجر کاری کو صدقہء جاریہ سمجھیں۔ اپنے گھروں، حجروں اور زمینوں میں درخت لگائیں اور ان کا تحفظ کریں تو سب بہتر ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کا 25 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے جبکہ پاکستان کا صرف تین سے چار فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے جو بتدریج کم ہو رہا پے جوکہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ساون کا مہینہ آنے کو ہے اور قدرت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اگر اپنی اور اپنی نسلوں کا بھلا چاہتے ہو تو درخت لگاؤ۔ آئیے اپنے حصے کا کم از کم ایک درخت لگا کر اس کی حفاظت کا زمہ اٹھائیں۔ اسی میں ہم سب کی بقا اور دنیا کی رعنائیاں ہیں۔ بقول شاعرہ فاطمہ حسن:

مکاں بناتے ہوئے چھت بھی بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.