قومی اداروں کو منافع بخش بنانے کا پلان

38

اداریہ

ملک میں سرکاری اداروں میں خسارے کی وجہ سے مالیاتی پیچیدگیوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ۔سٹیل ملز ،پی آئی اے اور ریلویز کے خسارے کی برسوں سے دہائی دی جاتی رہی ہے ،تاہم ان اداروں کو منافع بخش بنانے کا کوئی پلان روبہ عمل نہیں لایا جاسکا ،اب ن لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے خسارے میں چلنے والے قومی ادارے نجی شعبے کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے اس تناظر میں
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اگر اس ملک کو آگے جانا ہے تو سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا پڑے گا، اور اگر ملک کو ریلیف چاہیےتو حکومت کا جتنا بوجھ ہے، اسے کم کرنا ہوگا۔پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کاشتکاروں اورکاروباری شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں، انہوں نے اپنی اچیومنٹس اور مسائل کے بارے میں آگاہ کیا، بجٹ کے حوالے سے کچھ باتیں کروں گا۔ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کچھ اصول اور پرنسپلز کی بات کی تھی، ان کو دہرانا چاہوں گا، پہلی بات تو ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی 9.5 فیصد ہے، یہ سسٹین ایبل نہیں ہے، بار بار کہتا ہوں کہ خیرات سے اسکول، یونیورسٹیاں اور ہسپتال تو چل سکتے ہیں، ملک صرف ٹیکس سے چل سکتے ہیں، ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو بتدریج 13.5 فیصد پر لے کر جانا پڑے گا۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کے مختلف اقدامات ہیں کہ ہم اس کو وہاں لے کر کیسے جائیں گے، پہلا تو جو ریونیو اقدامات کا اعلان کیا گیا، اس میں یہ تھا کہ وہ تمام شعبے جو پہلے ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں نہیں تھے، انہیں اس میں لایا جائے، دوسرا یہ تھا کہ گزشتہ برس 39 کھرب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی، ہمیں اس چھوٹ کو ختم کرنا ہے۔محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں ہم باقی سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں، 31، 32 ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور جولائی سے ان پر ٹیکس کا اطلاق ہوگا۔ ہم انفورسمنٹ اور کمپلائنس کی طرف جا رہے ہیں، سسٹم میں جو لیکیجز ہیں، قوانین پہلے سے موجود ہیں لیکن ہم ان کو نافذ نہیں کر پا رہے، اس کے لیے ہمارے ٹیکس اتھارٹی کو آگے بڑھنا پڑے گا، اس میں سیلز ٹیکس اور ان کا فراڈ ہے، تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسی طرح ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو ٹوبیکو کے شعبے سے شروع ہونا تھا، اس کے بعد چینی، کھاد، سیمنٹ اور دیگر سیکٹر میں جانا تھا، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، اس کی وجہ سے جو آمدنی ملنی چاہیے تھی نہیں مل سکی۔ہمیں ان ساری چیزوں کو ادارک ہے اور ہم ڈیجاٹزیشن کر رہے ہیں تاکہ انسانی عمل و دخل کم ہو، اس کے نتیجے میں شفافیت آئے گی، کرپشن کم ہو گی، کیوں لوگ ایف بی آر کے نیٹ میں نہیں آنا چاہتے؟ اس لیے نہیں آنا چاہتے کہ ہمیں جو ہراسمنٹ ہوتی ہے، ہمیں جو نوٹسز آتے ہیں، جو لوگ مجھے آ کر بتاتے ہیں، ان کو اس چیز کا ادارک نہیں ہے کہ میں پرائیویٹ سیکٹر میں رہ کر آیا ہوں۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے یہ کہنا کہ ہم ٹیکس نیٹ میں نہیں آئیں گے، یہ بھی درست بات نہیں ہے، ہمیں دونوں چیزوں کو بیلنس کرکے چلنا پڑے گا۔ وزیر اعظم خود مانیٹر کر رہے ہیں کہ ہم آٹومیشن کی طرف کیسے جا رہے ہیں، کیونکہ یہ بہت اہم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بات ہو رہی ہے کہ اپنے اخراجات کم کیوں نہیں کررہے، یہ بات درست ہے، حکومتی اخراجات میں دو چیزیں ہیں، جس کے بارے میں ہمیں دیکھنا ہے اور اس کو آگے لے کر جانا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ جو سب سے آسان چیز ہے کہ جو شعبے صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، وہاں وفاقی حکومت کو وزارتیں بند کردینی چاہیں، ان محکموں کو ضم کردینا چاہیے تاکہ خرچہ کم ہو۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ فرض کریں کہ پی ڈبلیو ڈی بند کردیتے ہیں، اس کے براہ راست ساڑھے تین، 4 ارب روپے کے اخراجات ہیں، جو بجٹ ہم نے پیش کیا ہے، اس میں تو یہ معمولی رقم ہے، یہ رقم نہیں بچی ہے، اصل میں بچت یہ ہوئی ہے کہ جو منصوبے یہ ہینڈل کرتے ہیں، اس میں سے کتنا خرچ ہوتا ہے، کتنا کرپشن کی مد میں جاتاہے، قومی خزانے کو اصل نقصان یہ ہے، اصل لاگت یہ ہے کہ جو رقم ہم مختص کرتے ہیں، اس میں سے کتنی خردبرد ہو جاتی ہے۔انکا کہنا تھا کہ ہم نہ صرف اخراجات پر غور کر رہے ہیں بلکہ وفاقی سطح پر اس کو کم کرینگے اور بڑے مناسب اقدامات آپ کو اگلے ایک، ڈیڑھ مہینے میں پتا چلیں گے۔ان حالات میں حکومت کے پرائیویٹائزیشن پلان پر بھی شفاف طریقے سے عملدرآمد کی ضرورت ہوگی ۔تاکہ ملکی اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے درست سمت کا تعین ہو اور اسکے لئے حکومت کے نگرانی کا عمل انتہائی موثر ہونا چاہئے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.