ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست ہے

70

تحریر: خالد غورغشتی

ہاتھ سے کمانے والا عظیم انسان مزدور کہلاتا ہے۔ محنت مزدوری اور کسب حلال کو ہمارے دین میں پسند کیا گیا۔ حتی کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مقررہ اُجرت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

آج ہم من پسند دین اور من پسند نظام چاہتے ہیں۔ جِس کا جیسے جی چاہا، نماز پڑھ لی، نہ وضو کے فرائض کا علم نہ نماز کے بنیادی مسائل سے آگاہی۔
ستم ظریفی تو یہ کہ اب نماز کے بعد سنت موکدہ بھی سرِعام ترک کی جا رہی ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں۔

عبادات کا رحجان پہلے ہی کم تھا ، سوشل میڈیا نے رہی سہی کثر بھی پوری کردی۔ اب لوگوں کے پاس فرض نماز کے بعد دُعا مانگنے کا وقت نہیں رہا۔

ہمارے ملک کی بدقسمتی کہ یہاں مزدور کو اکثر جگہوں پر بہ مشکل پانچ سو روپے دیہاڑ ملتی ہے۔ وہ بھی خون پسینا ایک کر کے دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اکثر لوگ پیشہ ور بھکاری بن کر خوب دیہاڑ لگاتے ہیں۔ یوں ہی جب غیرت مند مزدوروں کو اپنے ملک میں اپنی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آتا ہے تو وہ مجبور ہو کر عرب ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں ہمارے مزدوروں کے ساتھ عموماُ جانوروں جیسا سلوک دیکھنے کو ملتا ہے۔ کئی لوگ پیٹ کی بھوک و پیاس کاٹ کر دو دو سال کی تنخواہ نہ ملنے کے باعث اس سارے نظام سے ہی بیزار ہو جاتے ہیں۔ وہ خود داری سے زیادہ مجبوری کو سامنے رکھ کر کام پہ لگے رہتے ہیں کہ کبھی تو حق ملے گا۔ کام کرتے کرتے ان کا دو سال کا ویزہ ختم ہوجاتا ہے، وہ اپنے دیس لوٹ آتے ہیں۔ قسمت میں ہو تو تنخواہ مل جاتی ہے ورنہ وہ عمر بھر انتظار کرتے کرتے مقدر کو کوستے زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے دُکھوں کا مداوا کون کرے گا؟
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے نہ کارخانے فیکڑیاں لگائی گئی نہ ہی زراعت کے شعبے اور سیاحت کو فروغ دیا گیا۔ لوگ اپنے مدد آپ کے تحت جو کچھ کر رہے ہیں وہ قابلِ تعریف ہے۔

پچھلے دنوں ہمارے خاندان میں ایک جوان کا عرب ممالک میں انتقال ہوگیا۔ اس کی میت لاتے ہوئے، جتنی مشکلات پیش آئیں، یقین کریں؛ والدین اس کے مرنے کے بعد میت پہنچنے کے انتظار میں کئی بار مرے۔ کس قدر درد ناک لمحات ہوتے ہیں، جب والدین جوان اولاد کی موت کا صدمہ سہتے ہیں اور پھر میت کے انتظار میں کبھی جیتے کبھی مرتے ہیں۔

دنیا بھر میں مزدور کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ہمارے دیس میں ہمیشہ اسے کیوں کم تر سمجھا جاتا ہے؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.