اداریہ
گندم خریداری کیلئے وزیراعظم کی ہدایت پر فوری عملدرآمد کی ضرورت
پاکستان میں کاشتکاروں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ،ملک بھر سے باالخصوص پنجاب میں گندم کی خریداری شروع نہیں کی جاسکی ہے ۔کئی طرح کی پیچیدگیوں کے سبب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں امسال گندم ہدف سے زیادہ پیدا ہوئی ہے ،صوبے کے کاشتکاروں کے پاس گندم کو موسمی تغیر سے محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ،سرکاری طور پرگندم خریدنے کے اہداف مقرر ہوتے رہے مگر عملی طور پر کسانوں سے مقررہ نرخ 3900پر گندم نہیں خریدی جارہی ۔طوفانی بارشوں کی پیشگوئی پر کسان پریشان ہوکر اونے پونے گندم بیچنے پر مجبور ہوئے تووزیراعظم شہباز شریف نے گندم کے حوالے سے سامنے آنے والی شکایات کے حل کیلئے اہم فیصلہ کرتے ہوئے گندم خریداری کا ہدف 14 لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھا کر 18 ملین میٹرک ٹن کرتے ہوئے فوری خریداری کا حکم دیدیا۔ملک میں گندم کی خریداری کے معاملے پر کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔قبل ازیں قومی اسمبلی میں بھی اس حوالے سے اپوزیشن بینچز پر بیٹھے ارکان نے گندم کی خریداری سے حکومتی انکار اور بمپر فصل ہونے کے باوجود اجناس کی درآمد کی اجازت دینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اپوزیشن کے شیخ وقاص اکرم نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد کسان سڑکوں پر ہونگے اور حکمران اس کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر نے اعتراف کیا تھا کہ گندم کی درآمد کی اجازت دینا نگران حکومت کا غلط فیصلہ تھا، ان کا کہناتھا کہ وہ کاشتکاروں سے زیادہ سے زیادہ گندم کی خریداری کیلئے صوبائی حکومتوں کو خط لکھیں گے۔اب وزیراعظم نے کسانوں کی شکایات پر سخت نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت کی طرف سے کسانوں سے گندم کی فوری خریداری کا حکم دیدیا۔وزیراعظم نے گندم کی خریداری کے حوالے سے پاسکو کو شفافیت اور کسانوں کی سہولت کو ترجیح دینے کی ہدایت بھی کردی۔شہباز شریف نے وفاقی حکومت کا گندم خریداری کا 1.4 ملین میٹرک ٹن کا ہدف بڑھا کر 1.8 ملین میٹرک ٹن کردیا۔وزیراعظم کی جانب سے پاسکو کو گندم خریداری کا ہدف بڑھانے اور فوری خریداری یقینی بنانے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔قبل ازیں صدر پاکستان کسان اتحادخالد کھوکھر نے وزیر اعظم شہبازشریف کو خط لکھا تھا جس میں ملک میں گندم بحران اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی انکوائری کا مطالبہ کیا تھا۔صدر پاکستان اتحاد نے خط میں لکھا کہ غیر ضروری طور پر گندم درآمد سے ملکی خزانے کو ایک ارب ڈالرکا نقصان ہوا، وزرات تحفظ خوراک نے 35 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم درآمد کی، جس سےکسانوں کو 3 سو 80 ارب اور حکومت 104 ارب روپے کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔خالد کھوکھر نے خط میں مزید لکھا کہ پاسکو اور صوبائی محکمہ خوراک کے پاس یکم اپریل تک 43 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم موجود تھی۔کامرس منسٹری کے غلط فیصلے کی وجہ سے گندم کی درآمد پر کوئی قدغن نا لگائی گئی اور مارچ تک کراچی میں گندم کے جہاز لنگر انداز ہوتے رہے ہیں۔وزیر اعظم اس معاملے کا نوٹس لیں اور ایک اعلی سطحی کمیٹی بنا کر اس کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دیں۔ان حالات میں اب وزیراعظم شہباز شریف کی گندم خریداری کیلئے دی گئی ہدایات پر فوری عملدرآمد کی ضرورت ہے ۔تاکہ کاشت کاروں کی محنتیں ضائع ہونے سے بچائی جاسکیں کاشتکاروں کے لئے اس بار جو غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی اس کا ہمیشہ کے لئے تدارک ہونا چاہئے ،اسکے ساتھ حکومت میں جس سطح پر بھی اس بحران کو پیدا کرنے کیلئے جو لاپروائی اور غفلت ہوئی ہے اس کا بھی ازالہ ہونا چاہئے ،گندم خریداری کے عمل کو آئندہ کے لئے بھی شفاف بنایا جائے ۔کاشتکاروں کی شکایات کے ازالے کی فوری صورت پیدا کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔