قحط الرّجال

27

تحریر: شفقت حسین
امتدادِ زمانہ کہیے یا اس بدیہی او رجوہری حقیقت کو کوئی اور نام دیا جائے کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں اس وقت قحط الرّجال کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ بہت زیادہ دور ماضی میں جائے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی شعبۂ زندگی میں افراد نہیں بلکہ مردوں کی کمی نہ تھی۔ سیاست کے میدان میں قائداعظم، علامہ اقبال کے بعد قائد عوام اور ان دونوں معزز سیاسی قائدین کے جیب میں موجود کھوٹے سکوں کے باوصف ان کے ساتھ جڑے ہوئے بہت سے لوگ واقعی مردِ میدان تھے۔ اہلِ صحافت میں میرے استاد محترم اور محسن ومرّبی ارشاد احمد حقانی مرحوم و مغفور کے علاوہ میر خلیل الرحمن ، چراغ حسن حسرت، عباس اطہر ،عبدالقادر حسن، پروفیسر وارث میر، رئیس امروہوی، وقار انبالوی حمید نظامی، مجید نظامی اور دیگر بہت سارے اہلِ قلم کی بدولت صحافت جیسی وادیٔ پُرخار بے آب و گیاہ نہ تھی۔ اسی طرح ہماری پاکستانی فلم انڈسٹری کا دنیا بھر میں طوطی بولتا تھا۔ اعجاز درانی، سدھیر، حبیب، مظہر شاہ، الیاس کشمیری، سلطان راہی، ندیم، وحید مراد، یوسف خان، اقبال حسن ، اسد بخاری ، افضال ہمارے ہیرو جبکہ فردوس (جسے لوگ فلم انڈسٹری کی جٹی کہا کرتے تھے) زیبا، شبنم آسیہ، بابرہ شریف، ملکۂ جذبات بہار یعنی ایورگرین بہار بیگم اور عالیہ کا جوڑ ہی کوئی نہ تھا، سروں کی ملکہ ملکۂ ترنم نور جہاں ‘ خان صاحب مہدی حسن بقول بھارتی فلمی سپر سٹارز جن کے گلے میں بھگوان بولتا تھا’ انصاف اور قانون کے میدان کے شہسوار جسٹس منیر، جسٹس ایم آر کیانی، جسٹس رانا بھگوان داس، جسٹس اے آر کارنیلیئس، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس محبوب اور بہت سے نیک نام منصفین کرام اپنے اپنے فیصلوں میں تاریخ رقم کیا کرتے تھے۔ ہم لاکھ الزام دیں جسٹس منیر مرحوم پر کہ انہوں نے نظریۂ ضرورت ایجاد کیا لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان کی قانون پر لکھی گئی کتاب آج بھی نصاب قانون کا حصہ ہے۔ کرکٹ کا میدان ظہیر عباس، جاوید میاں داد، عمران خان اور ان کے دیگر ہم عصر کھلاڑیوں کے دم قدم سے پُررونق اور آباد تھا۔ ہماری صنعت و حرفت کے کار پردازان جو ملکی معیشت کے استحکام میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے ان کی بھی کمی نہ تھی اور ان کی بدولت اِس شعبہ میں بھی قحط الّرجال دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ پہلے تک لوگ پریا پنچائت میں بھی جھوک اور ڈنڈی نہیں مارتے تھے۔ اپنا پلّہ ہار کر بھی خسارے کا سودا کر کے بھی اپنے ہاں انصاف کے حصول کے لئے آنے والے فریقین کو جسٹس فراہم کرتے تھے لیکن جوں جوں لوبھ اور مادی لالچ بڑھنے لگا۔ معاشرے میں مرد یعنی انسان گھٹنے لگے اورسائے بڑھنے لگے۔ یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ زیرِ نظر منظر نامہ مجھے آٹھ فروری کے روز ہونے والے قومی انتخابات میں فیصل آباد میں پاکستان مسلم لیگ ن کو حریف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کئے جانے والے کلین بولڈ کے باعث لکھنا پڑا کہ اسے رانا ثنا اللہ اور عابد شیر علی کے علاوہ کوئی دوسرا سیاسی مرد میدان نظر ہی نہ آسکا۔ پنجاب بھر میں یہی صورتحال تھی اور تو اور لاہور جو پاکستان مسلم لیگ ن کا گڑھ تھا یہاں بھی ن لیگ کلین سویپ نہ کر سکی۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاں بھی پنجاب میں قمر زمان کائرہ اور سید آصف علی ہاشمی کے علاوہ کوئی معقول سیاسی راہنما نظر نہیں آتا۔ الیکٹیبلز کو تو چھوڑئیے کہ انہوں نے اپنے اپنے حلقۂ انتخاب سے سیٹیں ہر حال میں نکال لینی ہوتی ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی عمومی صورتحال قابل رشک نہیں لگتی۔ ہر سیاسی جماعت میں قحط الّرجال نظر آرہا ہے اگرکہیں نہ کہیں کوئی ہیرا موجود بھی ہے تو جوہری کو شاید اس کی پہچان نہیں رہی یا جان بوجھ کر صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ میرا یہاں ایک ادنیٰ سی مثال پیش کرنے کو بے طرح دل چاہ رہا ہے جو فیصل آباد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مسلسل اور پیہم چار مرتبہ ایم پی اے منتخب ہونے والے خواجہ محمد اسلام کی ہے جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف پر جان چھڑکتے ہیں ان کی خاطر کٹ مرنے کو تیار رہتے ہیں۔ بُری طرح نظر انداز کئے جانے کے باوجود آج بھی جھنڈا ن لیگ کا اٹھاتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کامیابی بھی اس علاقے سے حاصل کرتے ہیں جو نہ صرف بڑا وسیع و عریض ہے بلکہ انتہائی RICH ہے جہاں بڑے بڑے ملز مالکان ‘ صنعتکار’ تاجر کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ جہاں سے چار مرتبہ منتخب ہونا انتہائی مشکل ہے ۔یہ بھی واضح رہے کہ رانا ثنا اللہ خان کو میاں صاحبان سے متعارف بھی خواجہ محمد اسلام نے ہی کروایا تھا جو دس گیارہ برس فیصل آباد ہی نہیں پورے پنجاب پر اور بعدازاں پندرہ سولہ ماہ پورے ملک پر حکمرانی کرتے رہے جس کا ذریعہ خواجہ محمد اسلام تھے۔ 1993میں جب خواجہ اسلام پہلی مرتبہ جنرل الیکشن میں گئے تو ایک واقعہ دوستوں کو اکثر سنایا کرتے ہیں کہ میرے حلقے میں ایک علاقہ ایسا بھی تھا جہاں بائی پھیرو نامی ایک ٹی سٹال چلانے والے کا بڑا اثر و رسوخ تھا۔ میں جہاں جاتا ووٹر کہتا کہ بائی پھیرو نے فیصلہ کرنا ہے۔ میں اس کا ٹھکانہ معلوم کر کے اس کے پاس چلا گیا اور تعارف کروایا۔ بائی پھیرو چائے پینے والے لوگوں کے جوٹھے برتن دھورہا تھا ۔ کچھ دیر جب میں کھڑا رہا اس نے کوئی توجہ ہی نہ دی لیکن مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ اس کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے۔ بہت سارے ووٹرز اس کی جیب کی گھڑی ہیں لہٰذا میں بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ اس کی توجہ حاصل کرنے کا منتظر رہا۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ چائے پئیں گے؟ خواجہ اسلام بتاتے ہیں کہ میں اسی پیشکش کا تو منتظر تھا چنانچہ اثبات میں سر ہلایا۔ خواجہ صاحب بتاتے ہیں کہ اس نے چائے بنائی تو دو تین بار ہاتھ مل مل کر ہاتھوں کی میل سے گدلا ہو جانے والا پانی زمین پر گرایا اور صاف پانی سے کپ دھوئے بغیر اس میں چائے ڈال کر ہاتھ میری طرف بڑھادیا کہ چائے لے لیں۔ خواجہ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے بڑی کراہت محسوس ہوئی کبھی دل کرے چائے نہ پیؤں کبھی دل چاہے کہ پی لوں کیونکہ اس کا ووٹ بنک ہی بہت تھا اور اندر کی بات یہ تھی کہ مجھے اپنے قائد کو جیت کر سرپرائز دینا تھا کیونکہ یہ میرا پہلا الیکشن تھا۔ لہٰذا چاروناچاردل پر پتھر رکھ کر میں نے چائے پی لی اور نتیجتہّ اس علاقے سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا لیکن قارئین ایسے بندوں کو نظر انداز کرنا جبکہ قحط الّرجال پہلے ہی عام ہے بے معنی سی بات لگتی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ خواجہ اسلام کی شہر میں بڑی اچھی شہرت ہے کاروباری لوگ ہی کیا عام عوام اور ضلعی انتظامیہ بھی احترام کرتی ہے۔ شاید 2018 کے انتخابات میں ان کے ایک چھوٹے بھائی الیکشن ہار رہے تھے کہ کسی ”بڑے” کا انہیں فون آیا لیکن خواجہ صاحب نے ضمیر پر بوجھ نہیں پڑنے دیا اور چپ چاپ بھائی کی شکست تسلیم کر لی اور حقدار کو اس کا حق فراہم کرنے میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ شہر میں اگرچہ خواجہ اسلام کی مقبولیت اور شہرت بامِ عروج پر ہے تو مخالفین کی بھی کمی نہیں جو ن لیگ کے سربراہ کے کان بھرتے ہیں لیکن میاں صاحبان کو اپنے اس ناقابل شکست اور ناقابلِ فراموش سمجھے جانے والے سیاسی راہنماکو ہرگز ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس کا اوڑھنا بچھونا ہی ن لیگ ہے اور جس کے قائدین ہی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ہیں ۔ لہٰذا پارٹی کو قحط الّرجال سے بچایا جائے اور اپنے فدائین پر اپنے دروازے کھول دینے چاہییں۔ میرا یہی مشورہ ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں اور شعبوں کو ہے کہ سوشل ویلیوز (سماجی اقدار) کو خدارا ختم نہ ہونے دیا جائے اور نہ ہی قحط الّرجال کو بڑھنے دیا۔ بقول میرے بھائیوں کی طرح عزیز، ممتاز پارلیمینٹیرین سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر محمد شفیق چوہدری ہم لوگ بے حِس بھی ہیں بے بس بھی یعنی جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ کرتے نہیں وجہ اس کی ذہنی فتور اور کام نہ کرنے کی نیت ہے لیکن جو کام ہم کرنا چاہتے ہیں وہ کر نہیں سکتے لہٰذا وہاں بے بس ہیں اور قومی ندی کا دھارا انہی دو انتہاؤں یا دو کناروں کے درمیان بہہ رہا ہے اور یہی میری چاہیس پینتالیس سالہ عملی زندگی کا مشاہداتی خلاصہ ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.