افطار . گفتار اور اختصار
انسانی زندگی کو بچانا تاریخ کے ہر دور میں ایک قابل قدر فریضہ سمجھا گیا ہے
جو لوگ فریضہ ء انسانیت کی بجا اوری سے سرخرو ہو رہے ہیں وہ ہمیشہ نوع انسانی کے نزدیک تحسین و تبریک کے مستحق قرار پائے ہیں
پاکستان کی تاریخ میں کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی پاکستان کے اغراض و مقاصد اپنے دامن میں انسانوں کی خوشحالی اور صحت افزا ماحول کی تشکیل کے بے پایاں خزانے لیے ہوئے ہے ۔
کسٹم ہیلتھ کئر سوسائٹی کے سربراہ ڈاکٹر اصف محمود جاہ اور ان کی پوری ٹیم اور معاونین جن میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود گوندل ۔ ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا ۔ حافظ ڈاکٹر حذیفہ بشیر ۔ ڈاکٹر یمنی اور اشفاق احمد تاریخ کے صفحات پر کہکشاں کی طرح جگمگاتے رہیں گے
اس میں دیگر شامل افراد نے جس تندی اور جانفشانی سے سوسائٹی کو اگے بڑھایا ہے وہ قابل صد مبارک باد ہیں دنیا کے ہنگاموں کی بھیڑ میں ابھی ایسے اصحاب موجود ہیں جو انسانیت کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں
اور انہی شخصیات کو وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ ہلال امتیاز ستارہ امتیاز چیئرمین کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی پاکستان نے ماہ رمضان کے روحانی موسم بہار میں رمضان کی برکات سمیٹنے کے لیے
افطار و عشائیہ کی پرشکوہ تقریب میں مدعو کیا
یہاں کس کس ہستی کا ذکر کروں پروفیسر مزمل احسن اور معطی حضرات کی کثیر تعداد موجود تھی
ان سب کی عظمت کو سلام جنہوں نے تڑپتی انسانیت کو سکون بخشا قران حکیم کا ارشاد ہے کہ
جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا ایسا انسان تڑپتی انسانیت کے لیے سکون کا پیامبر بن جاتا ہے
وہ رحمت کا بادل ہے ۔ بہاروں کا کارواں ہے ۔ وہ صبا کی موج حیات ہے ۔ وہ خدا کی خوشنودی کے لیے اپنی زکوۃ صدقات ۔ عطیات ایسے فلاحی اداروں کو دیتا ہے تاکہ مٹتی یادگاروں کو زندگی بخش سکے
اور تہذیب و تمدن کے افسردہ چہرے کا غازہ بن جائے افطار و عشائیہ تقریب افطار سے آدھ گھنٹہ پہلے
حافظ ڈاکٹر حذیفہ بشیر کی تلاوت قران کریم سے شروع ہوئی اور الماس جوئندہ کی پائندہ
مختصر نقابت ڈاکٹر اصف محمود جاہ کی دلگداز روداد فلسطین اور ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا کی خطابت بحر بیکراں کو قطرے میں انڈیل دیا ۔
سلطنت ترکیہ کے قونصلیٹ جنرل۔ رحمن فاؤنڈیشن کے چیئرمین عجوبہ روزگار معالج ڈاکٹر وقار احمد نیاز ۔
لاہور چیمبر اف کامرس اینڈ انڈسٹری کی تقریبات کی کنوینئر محترمہ فردوس نثار اور جناب نوازش لودھی کی موجودگی بھی ماحول میں اسودگی پیدا کر رہی تھی
اس استحصالی معاشرے میں ایسے لوگوں کا وجود معاشرے کی اصل برائیوں پر ہاتھ ڈال کر بنیادی طور پر وہ اس مرض کو دور کرتے ہیں جو نسلی انسانی کو کھائے جا رہا ہے ۔
بر صغیر پاک و ہند کے خطیب بے بدل جناب اغا شورش کاشمیری نے کہا تھا نسل انسانی
اس کو تسلیم کرتے ہوئے ہچکچائے گی کہ سامراج کا ایک کل پرزہ جو لاکھوں انسانوں کی محنت پر قابض ہے
وہ صرف اس لیے ممدوح و محترم ہو جائے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت یا ہتھیائی ہوئی محنت میں سے زکوۃ دیتا ہے
خیرات کرتا ہے عام لوگوں میں سخی کہلاتا ہے نیاز نذر بانٹتا ہے مسجدیں بناتا ہے چراغاں کر رہا ہے
تبرک لٹاتا ہے اپنے دسترخوان پر خطیبوں کو کھانے کھلاتا ہے اس کی وسیع دولت میں سے
ایک آدھ طالب علم کو وظیفہ اور ایک ادھ بیوہ کو ماہانہ بھی ملتا ہے
اصل سوال یہ ہے کہ جس معاشرہ کے ہم فرد ہیں اس میں لوگ بھوکے کیوں ہیں ؟ بیمار بے دوا کیوں ہیں ? بچوں کو تعلیم کیوں نہیں ملتی ؟ لوگ ننگے ہیں تو کس لیے ؟
سب کے لیے مکان کیوں نہیں ؟ دولت چند خاندانوں ہی کا حصہ کیوں ہے مرید فاقہ مست ہے
پیر جام بدست اس کے ہاں روشنی اس کی ہاں اندھیرا جس معاشرہ میں انکھوں کے چراغ بجھ رہے ہوں
جہاں دل ٹوٹ گئے ہوں زبان تشنہ ہوں پیٹ گرسنہ . جسم برہنا اولاد ناخندہ وہاں کسٹم ہیلتھ کیر سوسائٹی
اپنا کردار ادا نہ کرے تو حالات کسی اور کروٹ دکھائی دیں گے
ان لوگوں کا وجود کسی بھی معاشرے میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے
ڈاکٹر اصف محمود جاہ عرصہ ء 30 سال سے اس معاشرہ کی انکھوں کے چراغوں کو بجھنے نہیں دے رہے ہیں ۔
پچھلے دنوں رحمن فاؤنڈیشن کے سمینار میں ایک مقرر نے بڑی تکلیف دہ بات کی ۔
ایک خاتون نے اپنی عصمت فروخت کر کے بجلی کا بل ادا کیا ھے ۔ جس کا بدل دنیا کی کوئی متاع نہیں ہو۔
سکتی ۔ یورپ کے کسی ملک میں اپ کو ایسا واقعہ نہیں ملے گا ۔
افطار ۔ گفتار اور اختصار میں انسان کا کردار مضمر ھے ۔
منشا قاضی
حسب منشا
25/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-4-scaled.webp