چ سے چڑیا

86

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان

بیس مارچ کو انسان دوست پرندے گھریلو چڑیا کی حفاظت کا دن کہا جاتا ہے


پہلی کے قاعدے میں جب” چ “سے چڑیا پڑھتے تھے تو تصویر دیکھ کر سمجھنے میں بڑی آسانی ہوتی تھی
کیونکہ ہر جانب چڑیوں کا شور ،چہچہاہٹ اور ان کی اُڑان نظر آتی تھی۔ پھر چڑیا اور چڑے کی بے شمار کہانیاں اور نظمیں بھی نصاب کا حصہ تھیں۔
ہماری مائیں اپنے بچوں کو زیادہ تر چڑیوں کی کہانیاں اور نظمیں ہی سناتی تھیں۔ چڑیا کی اس کے بچے سے مثالی محبت کی داستان بچے کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتی۔
یوں بچوں میں چڑیا اور چڑیا کے بچے سے محبت شروع سے ہی ذہن میں بیٹھ جاتی ہے چڑیا کی تصاویر اور ان کی مشابہت کے کھلونے بچے آج بھی پسند کرتے ہیں کیونکہ اسے گھریلو پرندہ سمجھا جاتا تھا
ایک زمانہ تھا کہ بےشمار چڑیاں ہمارے ماحول کا حصہ ہو اکرتیں تھیں اور اس معصوم اور بے ضرر سے پرندے کی چہچہا ہٹ سے زندگی کا احساس ہوتا تھا ۔
خاص طور پرصبح کے وقت اور رات سے قبل ان کی موجودگی اورشور محسوس کیا جاسکتا تھا جو کانوں کو بےحد بھلا لگتا تھا اور یوں محسوس ہوتا کہ اللہ کی یہ مخلوق اپنے رب کی حمدو ثنا اور تسبیح میں مصروف ہے ۔
پہلے ہمارے گھروں کی منڈیروں ،چھتوں ،درختوں سے ان کی آوازیں اور چہچہاہٹ سنائی دے جاتی تھی گھروں میں چڑیوں کے گھونسلے بچوں اور بڑوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے
ان چڑیوں کو بڑی محبت سے پالنا بچوں کا شوق ہوتا تھا ان کے لیے دانہ اور پانی رکھنا ثواب سمجھا جاتا تھا ۔ ہمارے پنجاب میں تو آج بھی اپنی پیاری اور لاڈلی بیٹیوں کو معصومیت کی وجہ سے چڑیوں سے تشبیہ دی جاتی ہے اور بیٹی کی رخصتی کے ایک مشہور لوک گیت میں ان جذبات اور محبت کی عکاسی خوب نظر آتی ہے۔
ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے بابل اساں اُڈ جاناں
رفتہ رفتہ کم ہوتی یہ چڑیاں ناجانے کہاں کوچ کرتی جارہی ہیں شہروں کے پکے گھروں میں تو یہ چڑیاں کبھی کبھار ہی دکھائی دیتی ہیں البتہ دیہاتوں میں درختوں اور کھیتوں میں آج بھی موجود ہوتی ہیں کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے
یہ اب کیوں نظر آنا بند ہو چکیں ہیں ؟
ان چڑیوں کی یہ بیٹھک اب بجلی کے کھمبوں اور تاروں پر بھی کیوں ہوتی دکھائی نہیں دیتی پرندوں کے وہ جھنڈ کے جھنڈ آخر کہاں چلے گئے ؟ صبح وشام کی چہچہاہٹ کہاں گم ہو گئی ہے ؟
کہیں یہ ہم سے روٹھتی تو نہیں جارہی ہیں ؟۔ماہرین کے مطابق درختوں کی کمی اور ان کی کٹائی ،زرعی ادویات کا استعمال ،ٓالودگی ،پکے مکان اور بڑھتے ہو ے درجہ حرارت کے باعث ان کے مسکن متاثر ہوے ہیں
دوسری جانب ہمارے ملک میں شکار اور خوش خوراک لوگوں کا ان کو بطور خواراک استعمال کرنا بھی ان کی کمی کا باعث بنا ہے اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ایسی ہیں جو ان کی نشو ونما میں روکاٹ بن چکی ہیں ۔
چڑیوں کا عا لمی دن منانے کا مقصد جہاں ان کے تحفظ کا احساس دلانا ہوتا ہے وہیں ماحول کے لیے ان کی افادیت کا احساس دلانا ،ان کی افزائش کے لیے کوشش کرنا اور ان کی نسل کو بچانے کا شعور پیدا کرنا بھی شامل ہے
ساتھ ساتھ ان کی بقا کو لاحق خطرات کو بھی زیر بحث لانا ہوتا ہے ۔کیونکہ یہ پرندے ہماری فصلوں کے دشمن کیڑے مکوڑے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور زمین کا ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے والا پرندہ سمجھا جاتا ہے ۔
دنیا بھر میں چڑیا کو ماحول دوست ،معصومیت ،امن ،محبت وپیار ،محنت،غربت اور شاید مظلومیت کی بھی علامت سمجھا جاتا ہےاور اس حوالے سے بیس مارچ کو انسان دوست پرندے گھریلو چڑیا کی حفاظت کا دن بھی کہا جاتا ہے جس کا مقصد گھریلو چڑیا اور ان کے شہری ماحول پر اثرات کا شعور اجاگر کرنا ہے
اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں گھریلو چڑیوں کے بارے مین عوام میں شعور اجگر کرنے کے لیے مختلف تقاریب کا انعقاد ،اخبارات میں اس دن کی اہمیت پر مضامین اور اس بارے میں کارکردگی پر ایورڈز دئیے جاتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ دنیا صرف بھانت بھانت کے انسانوں اور حیوانوں سے ہی نہیں عجیب وغریب ،رنگ برنگ اور خوبصورت پرندوں سے بھی بھری پڑی ہے
انہیں میں ایک یہ چھوٹی سی گھریلو چڑیا بھی ہے جسکی ہزار وں اقسام پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں
لیکن پاکستان میں ان کی ایک مخصوص قسم بہت مقبول ہے جو پہلے تو گھروں کا حصہ ہوا کرتی تھیں
لیکن اب المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان چڑیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوتی چلی جارہی ہے
کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں کل پرندوں کی تعداد اندازا” پچاس ارب کے قریب ہے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت پرندوں کی تعداد آٹھ سو سے زیادہ نسلوں پر مشتمل ہیں
جن میں سے سینتیس سے زیادہ نسلوں کو اپنی زندگی بچانے کے لالے پڑچکے ہیں ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں چڑیوں کی تعداد اسی فیصد تک کم ہو چکی ہے جس سے ماحولیاتی توازن بھی بگڑتا چلا جا رہا ہے
جو بقا انسانی کے لیے بھی خطرہ بنتا چلا جارہا ہے ۔
سائنس دانوں کے مطابق ٹریفک کا شور پرندوں اور دیگر جانوروں کی مختلف صلاحیتیں متاثر کرتا ہے جس میں خوف کی باعث پرندوں کی خوراک تلاش کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے کہتے ہیں روشنی اور شور سے چڑیوں کے گانے اور نغمے بھی ماند پڑتے جارہے ہیں
کرونہ وبا کے دوران لاک ڈاون کی وجہ سے شور میں کمی ہونے کے سبب پرندوں کے گانے اور چہچہانے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے شور میں کمی سے ان کی افزائش میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
ہر سال کی طرح رواں برس بھی صرف دو دن بعد گھریلو چڑیا کا عالمی دن بیس مارچ کو منایا جاے گا جس کا مقصد اس معصوم پرندے کی بقا اور حفاظت کہلاتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے یہ چھوٹا سا پرندہ رفتہ رفتہ غائب اور نایاب ہوتا جارہا ہےتمام پرندوں سے محبت کرنے والوں کو ان کو بچانا چاہیے
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجاے براہ مہربانی اس ننھی سی چڑیا کو بچائیں ۔ اس حوالے سے محکمہ جنگلی حیات سندھ نے چڑیا شماری کی انوکھی مہم کا آغاز کیا ہے ایک خبر کے مطابق حکام نے کہا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں بیس مارچ کو “چڑیا کا عالمی دن “منایا جاتا ہے
اس مرتبہ انہوں نے چڑیا کے مشاہدے اور گنتی کا پروگرام مرتب کیا ہے رواں سال اقوام عالم یہ دن ” چڑیا کو چہچہانے کا موقع دیں ” اور “میں چڑیا سے پیار کرتا یا کرتی ہوں ” کے عنوان سے منانے جارہی ہے اس سلسلے میں محکمہ جنگلی حیات سندھ نے چڑیا کے مشاہدے اور گنتی کا جو پروگرام تشکیل دیا ہے
اس کے مطابق سترہ مارچ بروز اتوار صبح اور شام کے اوقات میں شہریوں کے مختلف گروہ نے چڑیا شماری کرنی ہے جب کے مہم کے نتائج بیس مارچ کو جاری ہوں گے
اس مہم میں چڑیا کی ویڈیو اور تصاویر کے ساتھ ان کی لوکیشن بھی نوٹ کی جاے گی بہت سے لوگوں نے اس مہم کے لیے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا ہے ۔
یاد رہے کہ چڑیوں کی نسل معدوم ہونے کی ایک سماجی وجہ پرندوں کا شکار اور لوگوں کے چڑے کھانے کا شوق بھی ہے اس مقصد کے لیے شکاری حضرات زندہ چڑیاں پکڑ کر فروخت بھی کرتے ہیں ۔
عالمی سطح پر چڑیا کا عالمی دن اس بات کا متقاضی ہے کہ دنیا بھر میں اس ماحول دوست پرندے کی بقا اور افزائش کا شعور بیدار کیا جاے اسکے شکار سے اجتناب برتا جاے
اور ان کی کمی سے پیدا ہونے والے نقصانات سے لوگوں کو باخبر رکھا جاے ۔
اس سلسلے میں صرف حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ سماجی تنظیموں اور فلاحی اداروں کو بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جبکہ سب بڑی ذمہداری ہمارے پرنٹ اور سکرین میڈیا کی بھی بنتی ہے
کہ وہ لوگوں تک اس موقع پر یہ پیغام پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرے کہ ایسے پرندے انسانی بقا کے لیے بے حد ضروری ہوتے ہیں ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جاے
کیونکہ ان پرندوں کی بقا ہماری زمین کی خوبصورتی اور حسن ہی نہیں انسانی زندگی کے لیے بہتریں ماحول کی ضمانت بھی ہوتی ہے ۔شجر کاری اور زیادہ سے زیادہ جنگلات میں اضافہ ان کی افزایش کے لیے بے حد اہم ثابت ہوتے ہیں ۔
یہ چڑیاں رفتہ رفتہ ہمیں چھوڑ رہی ہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کہنا پڑے کہ بہت دیر ہوگئی ” اب پچھتاوے کیا ہووے جب چڑیاں چگ گیں کھیت “

20/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-13-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.