جناب ڈپٹی کمشنر ،فیصل آباد۔۔ توجہ فرمائیں

30

بطور مسلمان اور مومن ہمارا کامل و اکمل ایمان ہے کہ
امت سازی کا عمل مکمل کرتے وقت ذاتِ باری تعالیٰ نے اپنے تمام فیصلے اور بنی نوعِ انسان کی تقدیر اور قسمت غرضیکہ ہر شے لوحِ محفوظ پر رقم فرما دی تھی
یعنی نباتات و جمادات، حیوانات ، درندوں، پرندوں، خزندوں تک کے فیصلے عرش برین پہ ہو چکے تھے لیکن یہ باتیں تو آج کا حضرت انسان شاید فراموش کر بیٹھا ہے
البتہ ایک فیصلہ اس کے ذہن ِرسا پر اس قدر نقش اور پختہ ہو چکا معلوم ہوتا ہے جو بھلائے نہیں بھولتا اور وہ ہے شادی بیاہ کا خوبصورت بندھن۔
ہم اکثر سنتے چلے آرہے ہیں کہ جوڑے (یعنی بچے اور بچی کی شادی) آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن یہ ملائے زمین پر جاتے ہیں۔
حالانکہ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ انسان تو ایک طرف کائنات کے ہر ذرّے کا فیصلہ ہواہی آسمانوں پر ہے۔ اور اللہ تبارک تعالیٰ کو کسی بھی کام کے لئے ترّدد نہیں کرنا پڑتا
اس کا ارادہ اور اس کی مشیت ہر شے پر غالب ہے لیکن یقین جانئے قارئین ہم نے زمانے کے دیگر رسموں اور رواجوں کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ کی رسومات کو بھی اس قدر پیچیدہ اور مہنگا بنادیا ہے
کہ اس سے جان چھڑانا مشکل ہو چکا ہے۔ زیرِ نظر کالم خالصتاَ ایک سماجی فرض کی ادائیگی کے تحت لکھا جارہا ہے اس میں نہ کسی کو سراہا جانا مقصود ہے اور نہ کسی کی (نندیا) ہجو کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔
عرض صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج کل سے نہیں عرصۂ دراز سے شادی بیاہ کی جو رسومات دیکھنے میں آرہی ہیں ان میں اسراف و تبذیر اور فضول خرچیاں اور شاہانہ انداز اس قدر بدرجۂ اتم دیکھے جاتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر امرأ تو گویا خوش ہوتے ہیں لیکن غربأ کے دل میں ٹیس ضرور اٹھتی ہے‘ جو درد جاگتا ہے اس کا کرب وہی محسوس کر سکتا ہے
جس کے گھر دوچار بچیاں سروں میں سفید چاندی لئے غربت و افلاس کے ان کے گھروں میں ڈیرے ڈالے ہونے کی وجہ سے پیا گھر سدھار نہیں سکتیں اور والدین روپیہ پیسہ نہ ہونے کے باعث ان حرماں نصیب بچیوں کے ہاتھ پیلے نہیں کر سکتے۔
یوں غریب بًچیاں والدین کی دہلیز پر پڑے پڑے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں
لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ کی رسومات کے کلچر کے حوالے سے پختہ اور محکم اور اٹل قانون نہ بنائے جا سکے لیکن اگر کسی نے نوٹس لیا بھی تو محض گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف۔
دور نہ جائیے 1996 میں میاں محمد نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے شادی کی تقریبات میں کھانا پیش کرنے پر پابندی عائد کر دی اس پر کچھ عرصہ عملدرآمد ہوا
بعدازاں میاں محمد شہباز شریف نے شادی کی تقریبات کو رات دس بجے تک محدود کر دیا یہ ایسے فیصلے تھے جن کی تحسین نہ کی جانی بخل اور کنجوسی کے زمرے میں آئے گا۔
بعد ازاں ون ڈش کی اجازت دے دی گئی اور وقت کی پابندی کا حکم برقرار رہا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں تو شادی ہالز مالکان وقت کی پابندی بہ جبرو اکراہ یا چارو ناچار کرتے ہیں مگر کھلے پارکوں اور گراؤنڈز میں نہ ون ڈش کی پابندی نظر آتی ہے اور پابندیٔ وقت کے حکم کی بھی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ کئی کئی ڈِشز انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات کے ساتھ جو طرفہ تماشا دیکھنے سننے میں آتا ہے وہ رات تین تین چار چار بجے تک چلتا ہوا فحش میوزک اور گندے اور غلیظ گانے ہوتے ہیں جو کانوں میں رس نہیں بلکہ زہر گھول رہے ہوتے ہیں۔ پارکوں اور گراؤنڈز میں ہونے والی تیل مہندی‘ مائیوں‘ شادی اور ولیمے کی رسومات گویا اردگرد کے مکینوں اور رہائشیوں کے لیے سوہانِ روح اور وبالِ جان بن جاتی ہیں لیکن قانون کا محافظ علاقہ ایس ایچ او بھی خوابِ غفلت میں پڑا رہتا ہے اور ضلع کا حاکم ڈپٹی کمشنر بھی لمبی تان کر سویا ہوتا ہے۔ اب ماضی میں میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف نے وقت کی پابندی رات دس بجے تک اور ون ڈش کی اجازت دے کر اپنا گویا فرض تو پورا کر دیاہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان دونوں خوش کن احکامات پر ضلعی انتظامیہ عملدرآمد کرواتی لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ میری اس بات کا یقین نہ آئے تو میرے آبائی ضلع فیصل آباد کے علاقے سمن آباد عثمانیہ پارک کی حالت کبھی ملاحظہ کرلیں۔ جہاں آئے روز شادی بیاہ اور تیل مہندی کی رسومات تو ہوتی ہیں جس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن جو اُدھم رات تین تین چار چار بجے تک مچایا جاتا ہے اس کا کوئی جواز ہے نہ قرینہ۔ اب تو وہاں پارکوں اور گراؤنڈز ہی میں نہیں شادی ہالز والے بھی نہ وقت کی پابندی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور نہ ہی ون ڈش کی۔ ہفتہ عشرہ پہلے مجھے دو تین شادیوں کے سلسلے میں فیصل آباد جانا پڑا۔ یقین جانئے قارئین بندہ تندرست جاتا ہے اور بیمار ہو کر واپس آتا ہے۔ میں ایک قریبی شادی ہال میں گیا مجھے صاحبِ خانہ نے شام سات بجے (پورے) ہال میں پہنچنے ک ہدایت کی لیکن وہ صاحب خود ساڑھے نو بجے بارات لے کر آئے۔ اگلے روز اسی شادی ہالز سے عین متصل شادی ہال میں ایک بچے کا ولیمہ تھا وہاں بھی دن ایک بجے سے چار بجے کا وقت مقرر تھا وہ خاندان بھی اِلاّ ماشااللہ ساڑھے چار بجے تک جب شادی ہال نہ آیا تو میں اپنے گھر واپس چلا آیا۔ اس دوران میں شادی ہال میں بیٹھا جب اپنے میزبانوں کا انتظار کر رہا تھا تو میں نے ایک ویٹر کو بلا کر پوچھا کہ ہال میں تھانہ سمن آباد کے ایس ایچ او صاحب کا صریح حکم آویزاں ہے لیکن اب ساڑھے چار بج رہے ہیں تو وقت کی پابندی کا حکم کہاں گیا؟وہ ویٹر ہنستے ہوئے بولا صاحب! جس شادی ہال کے مالک کا دس پندرہ لاکھ کا فنکشن لگا ہوا ہو اسے کیا پرواہ۔ وقت کی پابندی اور ون ڈش کی خلاف ورزی پر جرمانہ صرف 50 ہزار روپے ہے جو اس نے پہلے ہی نکال کر رکھا ہوتا ہے اس پر مستزاد یہ کہ پورے تھانے کا کھانا بھی کھلا بھیج دیا جاتا ہے لہٰذا اسے کون پوچھے گا؟ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا بندہ شادی میں تندرست جاتا ہے اور بیمار ہو کر واپس آتا ہے۔ سو میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور مسلسل رتجگوں کی وجہ سے کھانسی نزلہ زکام اور بخار اترنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے سو میں لاہور واپس آکر اپنے ایک مسیحا نفس معالج اور تجربہ کار ڈاکٹر محترم خالد الیاس کے پاس علاج کے لئے گیا اور ساری کیفیت بتائی۔ شادی ہالز اور ان کے مالکان کا تذکرہ بھی گفتگو میں آیا وہ ہنس کر کہنے لگے اکثر ایسا میرے ساتھ بھی ہوا ہے میں جب شادی ہالز والوں سے وقت کی پابندی اور ون ڈش کی خلاف ورزی کا اپنے تئیں نوٹس لیتا ہوں تو ایک دفعہ ایسا ہوا شادی ہال کے باہر علاقہ ایس ایچ او گاڑی میں محوِ استراحت تھے ویٹر نے اس گاڑی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! جس نے جرمانہ کرنا ہے یا ایکشن لینا ہے وہ باہر گاڑی میں بیٹھے ہیں۔ یعنی اس کا مقصد تھا کہ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہمارے معاملات پہلے ہی سے طے ہوتے ہیں۔ بہرحال میں نے یہ معروضات جناب وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے علاوہ ڈپٹی کمشنر فیصل آباد اور بالخصوص علاقائی ایس ایچ اوز کی توجہ کے لئے قلمبند کی ہیں کہ خدارا! فیصل آباد کے شہریوں سے ون ڈش بالخصوص شادی بیاہ کی رسومات اور تقریبات کی رات دس بجے تک پابندی کے حکم پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے جس نے اہل علاقہ کا رات کا سکون غارت کر رکھا ہے۔ رات تین تین چار چار بجے تک میوزک اور اُدھم مچانے کا کوئی جواز نہیں۔ کسی بیٹے اور بیٹی والے کو پارکوں میں شادی کرنے پر اعتراض نہیں البتہ اسراف و تبذیر کے کلچر‘ ون ڈش کی خلاف ورزی اور رات دس بجے کی پابندی کے احکامات کی دھجیاں اڑانے پر ضرور ہے۔ لاہور فیصل آباد اور پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں جہاں جہاں بھی ان دو خوبصورت احکامات پر عملدرآمد میں تساہل اور غفلت نظر آتی ہو ہماری درخواست ہے کہ کسی سے رو رعائیت نہ برتی جائے۔ قانون کو مکڑی کا جالا تو اکثر کہا جاتا ہے جسے طاقتور تو توڑ کر نکل جاتا ہے لیکن غریب اس میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ یہ مفروضہ اور کہاوت اب ختم ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ کسی بھی شادی بیاہ کی تقریب میں مذکورہ دو احکامات یعنی ون ڈِش کی خلاف ورزی اور پابندیٔ وقت کے حوالے سے بچی کے والدین بچے کے والدین‘ شادی ہالز مالکان اور ضلعی انتظامیہ انوالو ہوتے ہیں۔ ان سب میں ارتباطِ عمل اگر نہیں ہوگا تو ہم خود کو جنگل ہی میں رہتے ہوئے تصور کریں گے جہاں نہ قانون ہوتا ہے نہ انصاف اور نہ ہی انسانی حقوقی۔ لہٰذا اگر ان چاروں عناصرترکیبی میں سے کوئی بھی تعاون کرنے پر آمادہ نہ ہو تو کڑی سے کڑی سزا یعنی جیل کی سلاخیں مقرر کی جائیں کیونکہ جرمانہ امراء کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا جو جرمانہ ہے بھی یہ تو کوئی غریب آدمی بھی اِدھر اُدھر سے پکڑ کر ادا کر سکتا ہے۔ اصل کردار علاقہ ایس ایچ او کا ہے جسے آنکھیں دل اور دماغ کھلا رکھ کر اپنے فرائض ادا کرنے ہوں گے۔کیونکہ جب تک شملے نہیں گرائے جائیں گے انا اور تکبّر اور نخوت کے بُت ہر گز ہر گز پاش پاش نہیں ہوں گے۔ محض جرمانے کوئی معنی نہیں رکھتے۔

کالم: حرف تمنا
شفقت حسین

20/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-13-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.