فرد سے معاشرہ بنتا ہے

66

ہماری قوم کی حالت روز بہ روز عجیب و غریب ہوتی چلی جارہی ہے۔ ہر شخص پیسے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔
اور مائی مقدراں جیسے آہستہ آہستہ مہنگائی اور کرپشن کے ہاتھوں ہم سے روٹھتی چلی جارہی ہے۔
آج مال دار بھی پریشان ہیں اور غریب بھی۔ اس لیے سب بے بس تماشائی بنے پھرتے ہیں۔

مجھ سے پوچھیں تو سماجی ناہمواریوں کا راستہ ہم نے خود ایک دوسروں کو گرا کر چنا ہے۔
پہلے سب مال دار و صاحب حثیت نہ تھے البتہ ایک دوسرے کے غم شریک بھائی ضرور تھے۔
وہ دوسروں کی مشکلات پر ہنستے نہ تھے بل کہ دکھوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ لوگوں کی ہر پریشانی کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

پھر اچانک وقت اور حالات بدلے، نائن الیون کے بعد دنیا یکسر بدل کر رہ گئی۔
سوشل میڈیا کی آمد سے آہستہ آہستہ ہی سہی، مگر پورے منصوبے سے رشتوں کا تقدس پامال ہو کر رہ گیا۔
اب آپ کہیں بھی نظر دوڑائیں تو کہیں آسمانوں کو چھوتے بلند وبالا محلات نظر آتے ہیں
تو کہیں لوگوں کے پاس رہنے کو دو مرلے کا مکان نہیں ہے۔
کہیں ہوٹلوں پہ مہنگے مہنگے کھانے کھائے جارہے ہیں تو کہیں دو وقت کی روٹی عوام کو میسر نہیں۔
کہیں گھروں میں اتنا ساز و سامان موجود ہے کہ پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں،
تو کہیں کھانے پینے کے برتن پڑوسیوں سے مانگ کر گزارہ کیا جارہا ہے۔

بہ حثیت قوم ہم اعلی قسم کے منافقانہ رویوں کے مالک نکلے۔ جہاں سے ہمارے مفادات نکلے
ہم نے ان کے کتوں کو بھی مالک بنادیا اور جہاں سے ہمیں کچھ حاصل وصول نہ ہوا۔
وہاں پہ ہم نے ان کو مزید محروم کرکے انھیں عادی مجرم بننے پر مجبور کر دیا۔
آج ہم اس قدر گراوٹ و تنزلی کا شکار ہو چکے ہیں کہ برادری و خاندان کے غریب و نادار رشتے داروں سے تعلق استوار رکھنا ہتک عزت سمجھتے ہیں
دوسرے خاندان کے شریر النفس لوگوں سے اپنے مفادات کےلیے رشتہ استوار کرنا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ ہماری بے بسی کی داستانِ درد ناک یہیں ختم نہیں ہوتی۔
بلکہ ہم نے چند سکوں کی خاطر ہر وہ کام کیا، جس سے ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔
کھانے پینے کی اشیا سے لے کر زندگی کے تقریباً ہر معاملے میں ہم نے ایسے منظم گروہ بنا رکھے ہیں
جو اپنے اپنے تئیں سماج میں ہر طرح سے زہر گھول رہے ہیں۔
ہماری اکثریت ہمیشہ انتظامیہ اور حکومت کو تمام معاملات کا ذمہ دار قرار دے کر خود کو بری الزمہ قرار دینے کی ناکام کوشش کرتی رہتی ہے۔ یہ منافقانہ روش آخر کب تک چلتی؟

آج ہم اپنی اداؤں، حسد، بغض، نفرت اور لوٹ مار کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔
کسی پہ الزام لگانے سے پہلے ہم نے سوچنا ہے کہ کب کہاں اور کس سے کیا کیا غلطیاں سر زد ہوئی ہیں۔
ہم نے اپنے اردگرد کے کتنے لوگوں کو نفع دیا، کتنوں کو نقصان دیا ہے۔
ہم نے کتنی کرپشن اور لوٹ مار کی ہے.

دوسروں پہ الزام لگا کر ہم ان کی عزت کا تماشا تو لگا سکتے ہیں؛ لیکن اگر اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو خود کو کسی بھی معاملے میں بری الزمہ نہیں قرار دے سکتے ہیں۔

یادرکھیں! فرد سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
آج ہر فرد مخلوقِ خدا کےلیے نفع بخش بن جائے، کل اس کے ثمرات کا نزول اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔

تحریر: خالد غورغشتی

19/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-12-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.