غزہ سے رفح تک

82

“دنیا کا دوہرا معیار اور بہری خاموشی “



ایک عجیب صورتحال ہے ایک جانب مظلوم فلسطینی ہیں جن کے پاس کوئی حکومت ہے نہ کوئی ادرہ
کوئی فوج ہے نہ طاقتور ملک کے خلاف لڑنے کے لیےہتھیار ہیں کہ وہ ایک بڑی طاقت سے لڑ سکیں
اور دوسری جانب ان کے لیے اب ان کی اپنی زمین بھی تنگ کر دی گئی ہے
جہاں وہ خاردارتاروں میں محصور ہو کر اسرائیلی بربریت برداشت کرنے پر مجبور ہیں
دوسری جانب اسرائیل کی پشت پر وہ سب عالمی طاقتیں نظر آتی ہیں
جو فلسطین میں یہودی مملکت قائم کرنے اپنے پرانے منصوبے پر کاربند ہیں ۔
یہ عالمی طاقتیں فلسطینی معصوم بچوں کی چیخ وپکار سن رہی ہیں
ماؤں کے سینے سے لپٹے زخمی بچوں کو دیکھ رہی ہیں ،نوجوانوں کو ملبوں کے تلے دم توڑتے
اور بمباری سے پرخچے اڑتے دیکھ رہی ہے
نوجوان بلڈنگ کے ملبوں پر اپنے پیاروں کی لاشیں اور انسانی جسموں کے ٹکڑے ڈھونڈھتے
پوری دنیا کو نظر آرہے ہیں انہیں ہسپتالوں پر حملہ نہ کرنے کی اپیلیں بھی سنائی دے رہی ہیں
فلسطینیوں کے بے گور وکفن لاشے اور اجتماعی قبریں بھی دکھائی دے رہی ہیں
بھوک وپیاس سے سسکتے اور بلکتے بچوں کی دل دہلا دینے والی آہ و بکا پوری دنیا میں گونج رہی ہے
اس کے باوجود ان کی خاموشی کی باعث غزہ تیزی سے مکمل تباہی کے قریب پہنچ چکا ہے
فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی واضح نظر آرہی ہے مگر بے بسی کا وہ عالم ہے کہ
جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیا جاتا ہے ۔کیا احتجاج ،مذمت اور سڑکوں پر ماتم سے آگے بڑھنا
پوری دنیا کے لیے ممکن نہیں ہے ؟ جو دن رات انسانی حقوق اور انسانیت کا پرچار کرتے ہیں
اور دنیا بھر میں اس پرچار کے لیے بےشمار ادارے بھی قائم کر چکے ہیں
یہاں وہ اپنی آنکھیں بند کیوں کر لیتے ہیں ؟ انہیں غزہ پر ہونے والی اندھی بمباری نظر نہیں آتی
یا پھر وہ جان بوجھ کر آنکھ بند کر لیتے ہیں ؟ کیا ان کا ضمیر جھجھنوڑنے کے لیے فضاؤں میں بکھرے
خون کے لوتھڑے اور چیتھڑے کافی نہیں ہیں ؟اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتیو گوتریس
پہلے ہی اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتے ہوے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے پاس فلسطین میں
تشدد کی کارروائیوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسرائیل بین الاقوامی قانون کے تحت
اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرے مگر اس کا اسرائیلی کاروائی پر کچھ اثر نہیں پڑ رہا
بلکہ اس کے ظالمانہ اقدامات میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے
اسرائیل اب تک دس عالمی امن معاہدے پرزہ پرزہ کر چکا ہے اقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا
کوئی امن فارمولا
یہ صیہونی ریاست کسی کو ماننے پر تیار نہیں ہے تو دوسری جانب مغرب کا دوہرا معیار
اور بہری خاموشی صاف نظر آ رہی ہے جو یوکرین میں کچھ اور ہے اور فلسطین میں کچھ اور ہے ۔
بظاہر اسرائیل کو روکنے کے سبھی حربے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور غزہ میں اسرائیل کے انسانیت کش مجرمانہ اقدامات پر دنیا ایسے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے
جیسے یہ بچے اور یہ عام لوگ گوشت پوست کے انسان نہیں بلکہ مٹی کے کھلونے ہیں جنہیں میزائلوں اور بمباری سے تہس نہس کیا جارہا ہے جہاں عالمی عدالت بھی بے بس نظر آرہی ہے
دنیا بھر کے عوامی مظاہروں کے ساتھ ساتھ اب حکومتیں بھی اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرنے تو لگی ہیں
یورپی یونین کی ملک ناروے آئر لینڈ نے غزہ کی ناکا بندی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے
اور برازیلی صدر نے تو غزہ میں نسل کشی کی ہولوکاسٹ سے مماثلت دی ہے
اسرائیلی مظالم کو جدید تاریخ کے بدترین مظالم قرار دیا ہے اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ واضح محسوس ہوتا ہے
کہ نازیوں اور یہودیوں کے تماتر اقدامات یکساں مماثلت رکھتے ہیں
یہاں تک کہ اب تو اسرائیل کے اپنے عوام بھی سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں
اور کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی حکام مسلمانوں کےہی نہیں
بلکہ پوری انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں پوری مسلم دنیا بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپااحتجاج ہے اور ان مظالم کی مذمت کرتی ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے
اور فلسطین کے لیے مدد پہنچانے کا عزم رکھتی ہے سوال یہ ہے کہ کیا اربوں مسلمانوں کا یہ نرم اور مذمتی رویہ فلسطین کے امن کے لیے کافی ہے ؟ شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ بیان بہت حوصلہ افزا ہے
کہ وہ جنگ رکوانے کے لیے ہر حربہ آزمائیں گے ۔پاکستان کے آرمی چیف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ
اسرائیلی فوج کے مظالم انسانیت کے خلاف جرائم کا عکس ہے جس سے روکنے کے لیے پوری دنیا کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے ۔پاکستان فلسطینیوں کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا ۔
آج حقیقت یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ کی یکجہاتی اس سلسلے میں بے حد اہمیت اختیار کر چکی ہے
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ نے مسلسل تیسری بار اسرائیل کےخلاف جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرکے ہیٹ ٹریک مکمل کرلی ہے
یہ قرارداد غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف پیش کی گئی تھی جسے امریکہ نے ویٹو کرکے اس صیہونی ریاست سے اپنی دوستی نبھانے کی روایت کو برقرار رکھا ہے
اور برطانیہ نے اپنے ووٹ کا استعمال نہ کرکے ہمیشہ کی طرح اپنی خاموش حمایت جاری رکھی ہے
یاد رہے کہ غزہ پر سات اکتوبر سے جاری بمباری میں اب تک شہید ہونے والے مسلمان فلسطینیوں کی تعداد
تیس ہزار کے قریب تک پہنچ چکی ہے
جبکہ ساٹھ ہزار سے زائد زخمیوں کی تعداد بتائی جاتی ہے جن میں سے نصف تعداد خواتین اور بچوں کی بتائی جاتی ہے ۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق غزہ بچوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین مقام میں تبدیل ہو چکا ہے
جہاں مسلسل بمباری کی باعث ہسپتالوں تک کی صورتحال انتہائی نازک ہو چکی ہے
غزہ میں اکثر طبی مراکز بمباری کی وجہ سے غیر فعال ہوچکے ہیں جبکہ بارشوں اور سردی کے موسم کی آمد پر علاقے میں بیماریاں پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں
جبکہ مریضوں اور زخمیوں کی نازک حالت کے پیش نظر ان ہسپتالوں سے انخلا بھی ممکن نہیں ہے
طبی مراکز میں سازوسامان اور بجلی کی قلت کے باعث حاملہ عورتوں کو بے ہوش کئے بغیر ہی آپریشن کئے جارہے ہیں ان حالات میں بعض اوقات ڈاکٹروں کو مرنے والی ماوں کے بچوں کی قبل از وقت ڈلیوری کرنا پڑ رہی ہے ۔
غزہ کی پٹی کی موجودہ صورتحال دل دہلا کر رکھ دینے والی ہے جہاں ایک چوتھائی آبادی کھلے آسمان تلے فاقہ کشی اور پیاس سے مر رہی ہے
جہاں ظالم اسرائیلی فوجوں کے محاصرے کی باعث تقریبا” چھ لاکھ شہری شدید خوف ،بھوک اور پیاس سے نبرد آزما ہیں اسرائیلی عسکری کارروائیاں جنوبی غزہ کی طرف بڑھتے ہوئے
چار مہینوں بعد اب رفح کی دہلیز پر پہنچ گئی ہے جہاں پندرہ لاکھ فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں جو پہلے ہی غذائی قلت کا شکار ہیں مصر کی سرحد پر واقع تاریخی شہر رفح اب اسرائیل کی ظلم وبربریت کی زد میں ہے۔
لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل کی جانب سے کوئی بڑی فوجی کارروائی ہوئی تو
ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ مصر کے ساتھ سرحد پہلے ہی بند ہے
خدشہ ہے کہ جنوبی شہر رفح میں موجود ہ اسرائیلی بمباری سے اور اس علاقے میں زمینی حملوں کی صورت میں
لاکھوں لوگوں کو مد د پہنچانے کا کام معطل ہو جاے گا ڈبلیو ایف پی کے ایک ڈائریکٹر
میتھو ہو لنگورتھ کے مطابق رفح کی سڑکیں گلیاں لوگوں سے بھری پڑی ہیں اور شہر میں ہر جگہ عارضی خیمے دکھائی دیتے ہیں
مرطوب اور سرد موسم میں لوگوں کو مدد ،ایندھن اور خوراک کے حصول میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور علاقے میں خوف اور مایوسی کی فضا ہے ۔
گزشتہ روز غزہ میں خوراک کے لیے اکھٹے ہونے والے اور کھانے کے منتظر بھوکے پیاسے لوگوں پر اسرائیلی وحشیانہ فائرنگ ،بمباری اور بربریت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی
جس کی باعث بہت سی شہادتیں اور کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے
جس سے لگتا یہی ہے کہ اسرائیل رفح پر حملے پر تل چکا ہے دیکھنا یہ ہے کہ
کیا اقوام عالم اس تباہی کو روک پائیں گے ؟
گو عالمی برادری نے اسرائیل کو خبردار بھی کیا ہے کہ رفح میں کوئی بڑی فوجی کارروائی نہ کرے
لیکن اس کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم نے رفح کو نشانہ بنانے کا اعلان کر دیا ہے
جو بہت بڑی تباہی اور بے شمار انسانی جانوں کے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔
غزہ سے رفح تک اسرائیلی ظلم و بربریت دیکھ کر تاریخ میں انسانی سروں کے مینار بنانے والے
منگول وحشی حکمرانوں چنگیزخان اور ہلاکو خان اور نازیوں کے مظالم کی یاد تازہ ہو گئی ہے
جو اس ترقی یافتہ دور میں بھی دوہراے جا نا دنیا کے دوہرے معیار اور
بہری خاموشی کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں ہے ۔ گو اسرائیل اور فلسطین کا یہ مسئلہ
پوری دنیا حل نہیں کر پارہی
اور بےبس دکھائی دے رہی ہے لیکن اس کے اثرات سے خود محفوظ بھی نہیں رہ سکتی
اگر یہ جنگ فوری نہ روکی گئی تو خدشہ ہے کہ یہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے
جو عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے ۔
یہ جدید تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ہم انسانی مصائب کا مشاہدہ کر ہے ہیں اور
پوری دنیا جنگ بندی کا مظالبہ کرنے کے باوجود کسی طرح بھی یہ خونریزی رکوانے میں بےبس نظر آتی ہے ۔
یاد رہے کہ روز قیامت فلسطین کے ان مظلوموں کا حساب ہم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ
پوری دنیا کو بھی دینا ہوگا جو آج دوہراےمعیار اور بہری خاموشی کا شکار ہیں ۔

احساس کے انداز
تحریر؛۔ جاویدایازخان

23/02/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-17-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.