عنوان: جب دل تنگ ہو جائیں

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

2

انسانی تعلقات کا حسن محبت، خلوص اور اعتبار میں پنہاں ہوتا ہے۔ مگر افسوس، ہمارے معاشرے میں یہ رشتے اکثر بدگمانی، تجسس، اور حسد کی دھند میں لپٹے نظر آتے ہیں۔ ہم دوسروں کے بارے میں کیوں بدگمان ہوتے ہیں؟ ان کی کامیابیوں پر خوش ہونے کی بجائے ہم شک کا زہر کیوں گھولتے ہیں؟ یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک بیمار سوچ کا نتیجہ ہے جو آہستہ آہستہ ہماری اجتماعی روح کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

ہم کسی کی ترقی کو دیکھ کر اسے سراہنے کے بجائے شک کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی عزت پا لے، کوئی شہرت حاصل کر لے، یا کوئی بڑی کامیابی حاصل کرے، تو ہم فوراً کہتے ہیں: “سفارش ہو گی”، “چالاکی کی ہو گی”، یا “نصیب اچھا تھا”۔ کسی کی محنت، لگن اور قربانی ہمیں دکھائی ہی نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم خود اپنی ناکامیوں کے زخم سہلا رہے ہوتے ہیں، اس لیے دوسروں کی کامیابی ہمارے لیے باعثِ اذیت بن جاتی ہے۔

ایک اور تباہ کن رویہ “تجسس” کا ہے۔ ہماری دلچسپی دوسروں کے ذاتی معاملات میں حد سے بڑھ چکی ہے۔ کون کہاں گیا؟ کس سے ملا؟ کس کی طلاق ہو گئی؟ کس کا بیٹا ناکام ہے؟ ان جیسے سوالات اب محض گپ شپ کا حصہ نہیں بلکہ ایک سماجی مرض بن چکے ہیں۔ یہ تجسس ہمیں اخلاقی پستی کی جانب دھکیل رہا ہے جہاں اپنی زندگی کی بہتری کے بجائے دوسروں کی زندگی کو زیرِ بحث لانا معمول بن گیا ہے۔

الزام تراشی تو جیسے ہمارا قومی مشغلہ بن چکی ہے۔ ہمیں کسی کی کہانی کی مکمل حقیقت معلوم ہو یا نہ ہو، ہم جھٹ سے رائے قائم کر لیتے ہیں۔ کسی عورت نے طلاق لے لی تو قصور وار وہی ہے، کوئی نوجوان دیر سے گھر آئے تو غلط صحبت کا شکار ہے، کوئی خاموش ہو تو ضرور کوئی چال چھپا رہا ہے۔ ہم اپنی جہالت اور بدگمانی کو حقیقت کا لبادہ پہنا کر دوسروں کی کردار کشی میں مصروف رہتے ہیں۔

اور سب سے ہولناک زہر “حسد” ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو سب سے پہلے حسد کرنے والے کو ہی جلاتی ہے۔ حسد انسان کے دل سے اطمینان چھین لیتی ہے، اسے بے سکون، چڑچڑا اور منفی بنا دیتی ہے۔ حسد کرنے والا شخص نہ صرف دوسروں کی خوشیوں سے جلتا ہے بلکہ اپنی زندگی کو بھی برباد کر بیٹھتا ہے۔

تنقید کا کلچر بھی بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے۔ تعمیری تنقید کی جگہ اب ذاتی حملے، کردار پر انگلیاں اور طنزیہ رویے رائج ہو چکے ہیں۔ کسی کے لباس، چال، گفتگو یا خاندانی پس منظر پر تبصرے کرنا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ اصلاح کی کوشش کرنے والے کو جھوٹا، مغرور یا ریاکار کہا جاتا ہے، یوں مثبت تبدیلی کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔

اس تمام منفی رویے کی جڑ ہماری عدمِ تسلی، احساسِ محرومی، اور کمزور خود اعتمادی ہے۔ ہم اندر سے ٹوٹے ہوتے ہیں اور اپنی شکست خوردگی کو دوسروں کی خوشیوں میں دراڑ ڈال کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس کا انجام اجتماعی بگاڑ، انتشار، اور بے سکونی کے سوا کچھ نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں۔ اپنے احساسات، رویوں، اور سوچ کے دھاروں کا احتساب کریں۔ دوسروں کے بارے میں حسنِ ظن اپنائیں۔ کسی کی کامیابی کو شک کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اُس کی محنت کو تسلیم کریں۔ کسی کی خاموشی میں اُس کا دکھ، کسی کی مسکراہٹ میں اُس کی جدوجہد کو محسوس کریں۔

یاد رکھیے، دوسروں کے لیے نرمی، محبت اور خیرخواہی کا جذبہ اپنانا صرف اُن کے لیے نہیں، بلکہ ہمارے اپنے دل و دماغ کی سلامتی کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ محبت، امن اور ترقی کا گہوارہ بنے تو ہمیں اپنے رویوں کا رخ مثبت سمت میں موڑنا ہوگا۔

آئیے، عہد کریں کہ ہم بدگمانی نہیں کریں گے، الزام تراشی سے گریز کریں گے حسد کو دل سے نکال پھینکیں گے، اور دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہونا سیکھیں گے۔ کیونکہ جب دل تنگ ہو جاتے ہیں تو زندگی بھی تنگ ہو جاتی ہے—اور جب دل کشادہ ہوں تو دنیا بھی روشن ہو جاتی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.