کالم۔ بارشیں۔۔۔اللہ خیر کرے

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

5

وہ خدا ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ بادلوں کو حرکت میں لے آئیں پھر انہیں آسمان کی وسعت میں جس طرح چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے اور پھر انہیں تہ در تہ کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ ان بادلوں کے بیچ میں سے بارش کے قطرے گرنے لگتے ہیں پھر خدا اپنے بندوں جن کو وہ چاہتا ہے ان پر بارش برساتا ہے اور وہ خوش ہوجاتے ہیں رحمت الہی کے آثار دیکھو کہ وہ زمین کو اس کی موت کے بعد کس طرح زندہ کردیتا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر قرآن مجید نازل فرمایا اور کائنات ارض وسما کے سارے حقائق بیان کردیئے۔ مذکورہ آیات قرآنی میں بارشوں کی پوری سائنس بیان کردی گئی ہے۔ بارش کے اجزائے ترکیبی میں ہوائیں، آبی بخارات اور بادل قابل ذکر ہیں۔ بادلوں کا چلنا پھرنا اور پھر ایک خاص وقت پر آکر پانی کا زمین پر گرا دینا۔ بظاہر ایک عمل ہے لیکن ہر عمل کے پیچھے کوئی قدرت کارفرما ہوتی ہے یعنی کسی کا ہاتھ ہوتا ہے اور اس ہاتھ کو تلاش کرنے سے ہی حق بات کا پتہ چلتا ہے۔ بارش کی وجہ سے گرمی کی ستائی ہوئی مخلوق کی جان میں جان آجاتی ہے۔ مردہ اور بنجر زمین بھی زندہ ہوجاتی ہے اور پھر وہ ون پونی فصلیں اگانا شروع کر دیتی ہے۔ان فصلوں کے آنے سے انسان کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ معاشی حالت تو اچھی ہوتی ہی ہے۔ ون پونے کھانے۔ تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ بس شکر ادا کرو اور شکر ادا کرتے چلے جاؤ لیکن انسان خسارے میں ہے۔ انسان عجلت میں ہے اور وہ بھول جاتا ہے۔وہ تو یہ بھی بھول جاتا ہے کہ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔ باغات کو راتوں رات چٹیل میدانوں میں بدل دیا گیا۔ اصحاب الرس کو قصہ پارینہ بنا دیا گیا اور پھر روز مرہ ہمارے سامنے ان گنت واقعات۔ قائم دائم ذات خدا دی۔ یہ سارا کچھ بھول جانے کے بھی نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ خالق اور مالک اپنا رد عمل دیتا ہے۔ رحمت کی دلیل بارش اپنی آئی پر آجاتی ہے۔ اور پھر پانی کا سیلاب آجاتا ہے یوں فطرت پوری طاقت سے انسان کو کسی کے ہونے کا پیغام دیتی ہے اور انسان بس الحفیظ الامان کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے۔ ہر طرف پانی ہی پانی اور وہ بھی بپھرا ہوا۔ جوش وجنوں کا شدید مظاہرہ۔ انسان آگے آگے اور پانی پیچھے پیچھے ۔ بچاؤ بچاؤ کی آوازیں۔ کون ہے جو اللہ کی قدرت کے سامنے دم مار سکے ہاں توفیق تو پھر اسی قادر مطلق کی طرف سے ہی ہے اور دماغ کا استعمال۔ ہوش کے ناخن لینا۔ تقدیر اور تدبیر کا خوبصورت امتزاج اور پانی کے مزاج کے مطابق بند بنانا اور بالآخر ڈیم بنانا۔ یہ سارا کچھ کرنے میں دیر کرنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پھر اوپر سے میڈیا اور وہ بھی سوشل میڈیا۔ جس کے جی میں جو آئے کہہ دے اور بعد ازاں اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں جگ گئیں کھیت۔
ویلے ویلے دی گل اے۔ کل ہمارے کھیت کھلیان پانی سے ترس رہے تھے اور اوپر سے ہمارے دشمن ملک ہندوستان نے سندھ طاس معاہدہ منسوخ کردیا اور پھر جنگ کا شوق بھی پورا کرلیا لیکن کون نہیں جانتاہے کہ جینوں اللہ رکھے اوہنوں کون چکھے۔ پھر ساون رت کی پون چلی اور بادلوں نے چھم چھم برسنا شروع کردیا اور ہر سو بارشیں ہی بارشیں ۔ بادلوں نے زمین پر اتنا پانی انڈیل دیا کہ ہم سے حالات بے قابو۔ ساری ذمہ داری حکومت کی ہے۔ جتنے منہ اتنی گلاں۔ خیر کی بات کم اور شر پھیلایا جا رہا ہے۔ بارش سے سڑکیں زیر آب آگئیں۔ کئی گھنٹے سے پانی جمع ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں وغیرہ وغیرہ۔فطرت کا ایک اپنا فیصلہ ہوتا ہے اور اس فیصلے کے نتائج جب سامنے آتے ہیں تو حضرت انسان ایک لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے اور پھر اس پر عملدرآمد کرتا ہے۔ وقت تو لگتا ہے۔ مجموعی طور پر حالات دیکھ کر ہی تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ آخری خبریں آنے تک ہر سو موسلا دھار بارشیں اور ان بارشوں کی مینیجمنٹ پر سول ایڈمنسٹریشن اور تمام متعلقہ ادارہ کمر بستہ اور ان سارے اداروں کی نگرانی محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلٰی پنجاب خود کررہی ہیں۔ واقعات کا رونما ہونا فطری بات ہے تاہم جان ومال کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ۔ یہ بارشوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور خدا خیر کرے۔ ریاست اور شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ سے نبٹنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ حکومت پنجاب نے ہائی الرٹ جاری کردیا ہے۔ تمام متعلقہ ادارے ہر جگہ کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے تاکہ عوام اور اداروں کو اس صورتحال کی شدت کا احساس ہو سکے اور ہر کوئی اپنے اپنے لیول اور ہنگامی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کرے۔ اگر بارشوں کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ سیلاب ہے۔ اس لحاظ سے بھی بظاہر حکومت پنجاب کی تیاریاں مکمل لگ رہی ہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ دو طرح کا سیلاب آتا ہے ایک دریاؤں سے اور دوسرا رودکوہی نالوں سے۔ اور اگر دونوں اطراف سے بیک وقت سیلاب آجائے تو یہ ایک بہت ہی بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ سیلاب سے بچنے کے اقدامات کا تعین کرنا ضروری ہے۔ دریائی علاقوں سے انکروچمنٹ کا خاتمہ۔ بندوں کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات۔ بروقت لوگوں کو سیلاب کے خطرے کے بارے میں آگاہ کرنا یعنی وارننگ سسٹم۔ حسب ضرورت بریچنگ سیکشن کا تعین کرنا۔ فلڈ کی صورت میں متاثرہ آبادی کاانخلا اور ریلیف کیمپس میں ضروری اقدامات۔ تمام متعلقہ محکموں کی باہمی کوآرڈینیشن وغیرہ وغیرہ۔ ان جملہ امور پر حکومت پنجاب نے پوری توجہ دی ہے اب عوام پر لازم ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور اداروں کے ساتھ تعاون کرے تاکہ مزید سیلاب کی صورت میں ممکنہ اقدامات کو یقینی بنا کر عوام کی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.