صحت مند معاشرہ ہم سب کی ذمہ دا ری

تحریر: تنزیلہ مہناز افشاں

3
”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا”
کہتے ہیں کے نیکی گھر سے شروع کی جاتی ہے اس سوچ کو اگر دیکھا جائے تو شہر میں جابجا جو کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں اس میں کسی حد تک قصور ہمارا اپنا بھی ہے ہم اپنے گھروں کا کچرا تھیلوں میں بڑھتے ہیں ا ور باہر گلی کی نکرموجود کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیتے ہیں۔اگرچہ صفائی نصف ایما ن ہے مگر ہمارے ملک میں صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں کا جہاں دل کر تاہے وہیں کوڑا پھینک د یتے ہیں جس سے نہ صرف ماحول آلودہ ہوتا ہے بلکہ بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی فضلہ کی سطح کے اہم
محرک آبادی میں اضافہ، تیزی سے شہروں کا آباد ہونا، اقتصادی ترقی، غیر رسمی شعبے کی ترقی، صنعتی تنوع ا ور صحت کی دیکھ بھال کی وسیع سہولیات کی فراہمی ہیں۔پاکستان سالانہ تقریباً 6 ملین ٹن ٹھوس فضلہ پیدا کرتا ہے، جس میں سالانہ2.4 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔
(GOP) حکومت پاکستان کا تخمینہ ہے کہ ہر ہفتے87,000ٹن ٹھوس فضلہ پیدا ہوتا ہے، جو زیادہ تر بڑے میٹروپولیٹن علاقوں سے ہوتا ہے۔
 ایک اندا زے کے مطابق اگلے تیس برسوں میں، یہ عوامل عالمی فضلہ کی پیداوا ر میں 3.40 بلین ٹن اضافہ کریں گے۔
ہر ملک میں ہر طرح کا کچرا پیدا ہوتا ہے لیکن کچھ کچرے کی اقسام ایسی ہیں، جو ری سائیکل ہو سکتی ہیں ا ور دوسری جانب کچھ اقسام ایسی بھی ہیں، جو ماحول دوست نہیں ہوتی ا ن کو ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا۔ بڑھتی ہوئی آبادی،ترقی کی تیز دور ا ور نت نئی ایجادات کے فروغ سے کوڑے کی پیدا وا ر میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کچرا نہ صرف ماحول ا ور شہریوں کی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ لاہور باغوں کے شہر کی خوبصورتی کو بھی برقرا ر رکھنے میں ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
 غیرترقی پذیر ممالک میں پلاسٹک ا ور غیر بائیو ڈ ی گریڈ ا یبل کچرے کو ٹھکانے لگانا ایک مسئلہ بن گیا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں سولڈ ویسٹ کو بڑے اچھے طریقے سے ری سائیکل کیا جاتا ہے ا ور دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے کچھ ترقی یافتہ ممالک جیسے(سو یڈن)ریسائیکل کیے گئے ٹھوس کچرے کو برآمد کر کے بہت زیادہ غیر ملکی  کرنسی کماتے ہیں۔
جدیدسائنسی طریقوں کی بدولت فضول سمجھ کر پھینکا جانے والا کوڑا اب بذریعہ ری سا ئیکلنگ قابل استعمال بنانا ممکن ہو چکاہے۔سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی نے آج بظاہر بیکار و ناکارہ کچرے میں شامل بہت سی اشیا کو قیمتی بنا دیا ہے۔وجہ یہ کہ مختلف طریقوں کی مدد سے ا ن اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر نئی چیزیں بنانا ممکن ہو چکا ہے۔یہ عمل سائنسی اصطلاح میں ”ری سائیکلنگ کہلاتا ہے۔اگر بیروزگار پاکستانی نوجوا ن اس نئے شعبے کے اسرا ر ورموز سے واقف ہوجائیں تو و ہ اسے اپنا کر معقول آمدن کما سکتے ہیں
 اگرسبھی مغربی ممالک کی بات کی جائے بچوں کو ا ول دن سے کچرے کا انتظام کرنے کی تربیت ملتی ہے۔اس تربیت کے تین بنیادی اصول ہیں۔   ”Reduce, Reuse and Recycle‘
 یعنی کوڑا کم سے کم پیدا کرو،اسے دوبارہ استعمال کرنے کی کوشش کرو یا پھر اسے بحافظت ٹھکانے لگا دو۔ اس تربیت کا نتیجہ ہے کہ مغربی ممالک میں سڑ کیں ا ور گلیاں صاف ستھری دکھائی دیتی ہیں، باحفاظت کچرے کو اسکی مناسبت کی لحاظ سے متعلقہ بن میں ڈالا جاتا ہے ا ور کچرے کی ری سائیکلنگ سے نئی اشیا بنتی ہیں۔
 لیکن اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اگر غیر ترقی یافتہ ممالک کی بات کی جائے تو مسلسل ترقی کے ساتھ ا ن ممالک میں ویسٹ مینجمنٹ پربہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ا ور و ہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جو ماحول کی حفاظت،صحت، تعلیم ا ور معیشت کو بہتر بنانے کی جانب ہوتے ہیں پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے مگر خوشی کی با ت یہ ہے کہ حکومتی ادا رے ملک میں جدید ترین سہولیات کی فراہمی کے لیے منصوبوں کو معاونت فراہم کرتے ہیں سولڈویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پوری دنیا سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کی اہمیت پر زور دے رہی ہے یہ عمل ماحول کو صحت مند رکھنے،زمینی منظر کو بہتر بنانے ا ور مواد کو دوبارہ مزید مستقل طریقے سے دوبارہ استعمال کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے اسی سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ پنجاب میں بھی ایل ڈبلیو ایم سی کی جانب سے سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی قائم کی گئی جس کا مقصد لاہور
 کو دنیا کا صاف ترین شہر بنانا ہے، جس کا ا ولین مقصد پائیدا ر، محفوظ، صا ف ستھرا ا ور سرسبز ماحول کو یقینی بنانے کے لیے شہریوں ا ور نجی شراکت دا روں کی مشاورت سے اپنی مرضی کے مطابق حل فراہم کرکے لاہور کو دنیا کے صاف ترین شہروں میں سے ایک کے طورپر تبدیل کرناہے۔ اس کمپنی نے لاہور میں ویسٹ سیگریگیشن جیسے پائلٹ پروگرا م کو متعارف کروایا ا ورمختلف مقامات پر رنگین (لال پیلے ہرے)بنز بھی نصب کیے۔
اس پائلٹ پروگرا م کا مقصد مختلف قسم کے کچرے کو الگ الگ کر کے جمع کرنا ہے تاکہ جمع کیے گئے ویسٹ میں ضروری ویسٹ کو دوبارہ استعمال کیا جائے کچرے میں شامل جن چیزوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانا ممکن ہے،ا ن میں کاغذ،کارڈ بورڈ،دھاتیں،گلاس ا ور پلاسٹک کی بعض اقسام نمایاں ہیں۔ ا ور غیر ضروری ویسٹ (بائیو ڈ ی گر یڈ ایبل)کو با آسانی سے ڈمپ کیا جائے ا ور لینڈ فلوں کے بوھ کو کم کیا جاسکے۔
لیکن ہمارے معاشرے میں لوگوں کے رو یوں کو بدلنا بہت مشکل ہے ایل ڈبلیو ایم سی نے مختلف اگاہی مہم سے لوگوں کو اگاہ کیا دن بہ دن مختلف سماجی سرگرمیوں سے بچوں ا ور
بڑوں کی توجہ ویسٹ سیگر یگیشنن کی طرف دلا رہا ہے لیکن لوگوں کے رویوں میں لچک نظر نہیں آر
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.