کینسر کا کرب اور صحت کارڈ کی حد

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

5

گذشتہ روز ایک کینسر کے مریض دوست سے ملاقات ہوئی جو کینسر کے موذی مرض ساتھ ساتھ بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں بھی پریشان ہے ۔میں نے علاج کا پوچھا تو کہنے لگا کہ علاج کیسے کراوں صحت کارڈ کی  رقم تو چار لاکھ خرچ ہو چکی ۔بیماری کی باعث مزدوری بھی ممکن نہیں ۔پیٹ پالوں یا علاج کراوں کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔میں نے پوچھا کہ کینسر کے علاج کے لیے صحت کارڈ میں کتنی رقم رکھی گئی ہےتو پتہ چلا کہ صرف چار لاکھ روپے کی رقم ہوتی ہے۔جو چند ماہ علاج کے دوران ختم ہو جاتی ہے ۔کینسر کی ادویات بے حد مہنگی ہوتی ہیں جو خریدنا ممکن نہیں ہوتا ۔اس لیے بیشتر غریب مریض ادھورے علاج کی باعث صحت یاب نہیں ہو پاتے ۔میرے لیے یہ بڑی حیرت کی بات تھی ۔خود تحقیق کی تو پتہ چلا واقعی صحت کارڈ میں اس طویل بیماری کے علاج کے لیے صرف چارلاکھ کی رقم ہی رکھی گئی ہے ۔جو اونٹ کے گلے میں زیرہ کے مترادف ہے ۔پوری دنیا کی طرح پاکستان بھر میں بھی پچھلے  کچھ عرصےسے یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ خواتین میں بریسٹ کینسر اور مردوں میں زبان ،جگر اورپھپھڑے کا کینسر سامنے آیا ہے ۔ڈبلیو ایچ او  کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں اس کی شرح  میں اور بھی تیزی آسکتی ہے ۔اس کی وجوہات  میں سے سب سے بڑی وجہ غربت اور محدود وسائل ہوتے ہے ۔ہمارے علاقے میں بہاولپور اور ملتان میں صرف دو ادارےاس پر خصوصی کام کر رہے ہیں۔جو مینار اور بینو کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ جہاں جانے کے لیے بھی کرایہ اور دیگر اخراجات برداشت کرنا ہو تے ہیں ۔آج بھی بےشمار لوگوں کو  آخری وقت تک تشخیص نہ ہونے سے یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں ۔

کینسر ایک نام جسے سن کر جسم کانپ اٹھتا ہے ،دل دھڑکنا بھول جاتا ہے اور آنکھیں خوف سے چھلکنے لگتی ہیں ۔مگر جب یہی بیماری ایک غریب ملازم ،مستری ،درزی ،مزدوربیوہ ماں ،یا بےروزگار باپ کے دروازے پر آتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے  علاج نہیں صرف اذیت ،ذہنی اذیت ،جسمانی اذیت اور مالی اذیت ۔۔وہ لمحہ کسقدر کرب ناک ہوتا ہے جب ڈاکٹر کہتا ہے کہ “یہ کینسر ہے “۔۔۔یہ تین لفظ زندگی کا سارا مفہوم ،سارا سکون ،ساری مسکراہٹ نگل لیتے ہیں ۔اور جب اگلا جملہ یہ ہو کہ “علاج مہنگا ہے ” تو مریض کے جسم سے پہلے اس کے خواب ،اس کی امیدیں اور اس کے وسائل مرنے لگتے ہیں ۔اور پھر جب یہ سنا جائے کہ “صحت کارڈ سے صرف چار لاکھ تک علاج ممکن ہے ” تو درد کے ساتھ ساتھ غربت کا احساس بھی حوصلے توڑ دیتا ہے ۔چار لاکھ روپے ۔۔یہ وہ رقم ہے جو کینسر جیسے موذی مرض  کی ایک ابتدائی جھلک کے لیے بھی ناکافی  ہے ۔مہینوں چلنے والی کیمو تھراپی ،ہزاروں میں ہونے والے قیمتی ٹیسٹ ،لاکھوں کی سرجری اور پھر مسلسل ادویات ۔۔سوال یہ ہےکہ کیا ریاست اتنی بڑی بیماری کا مقابلہ صرف چار لاکھ کے کارڈ سے کرنا چاہتی ہے ؟ یہ  کیسی سہولت ہےیا وہ المیہ جو ” مدد ” کہہ کر بھی تنہا رہ جاتا ہے ۔پاکستان میں صحت کارڈ ایک نعمت ضرور ہے مگر جب کینسر جیسی موذی بیماری کی بات آتی ہے تو یہ سہولت ایک کمزور سا  آسرا بن کر رہ جاتی ہے ۔چار لاکھ روپے کی حد اگرچہ عام بیماری کے لیے کافی ہو سکتی ہے ۔مگر کینسر جیسے طویل ،پیچیدہ ،مہنگے اور مسلسل مالی قربانی مانگنے والے مرض کے لیے یہ رقم کسی ابتدائی ٹیسٹ ،بایوپسی ،یا ایک دو کیموتھراپی  سیشن میں ہی ختم ہو جاتی ہے ۔کینسر صرف جسم کا مرض نہیں ہے یہ دل اور دماغ پر ایسا بوجھ ہے جو صرف دوا سے نہیں بلکہ لوگوں کی دعا ،تعاون اور حکومتی رحم دلی سے ہی ہلکا ہو سکتا ہے ۔مگر ہمارے ہاں صحت کارڈ کی محدود حد مریض کے درد کا مذاق بن جاتی ہے ۔غریب ماں کی ممتا ،مزدور باپ کا پسینہ ،طالبعلم کی امید ۔۔سب کچھ اس وقت سوال بن جاتا ہے ۔جب ہسپتال کا کاونٹر صحت کارڈ کو اسکین کرکے کہتا ہے کہ “بیلنس ختم ہو چکا ہے “دنیا کے بیشتر ممالک میں کینسر جیسے امراض کے مکمل مفت علاج کی مثالیں موجود ہیں مگر ہمارے یہاں صرف چار لاکھ میں امیدوں کا سودا کرلیا جاتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ کارڈ ایک فلاحی سہولت ہے یا پھر ایسی  معمولی مدد  جس سے اس موذی مرض سے مکمل صحت یابی ممکن نہیں ہو سکتی ؟ غریب ماں جس کے بیٹے کی بائیں آنکھ میں رسولی ہے وہ ہسپتال کے در پر صحت کارڈ تھامےاس امید کا دامن تھام کر  کھڑی  ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا تندرستی کی نعمت پا لے گا ۔ایک سوال میرے ذہن میں ہمیشہ اٹھتا ہے کہ کہاں ہیں وہ سماجی اور فلاحی تنظیمیں  جو دکھی انسانیت کی خدمت کی دعویدار ہیں ؟جبکہ سوسائٹی میں سینکڑوں این جی اوز ،ویلفیر ادارۓ ،زکوۃ فنڈ ،مخیر حضرات اور خدمت خلق کے دعویدار موجود ہیں مگر کتنے ادارے واقعی کینسر جیسے مہنگے علاج کے لیے غریبوں کی مدد کر تے ہیں ؟ ادویات کی آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی  کے ساتھ ساتھ مریض کی روزمرہ خوراک اور پرہیزی کھانے ہی پورا کرنا کسی غریب تو کیا کسی سفید پوش سے بھی ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ملک میں قائم پرائیویٹ کینسر ہسپتال بھی ہر غریب اور سفید پوش کو مفت کی علاج کی سہولت دینے سے قاصر محسوس  ہوتے ہیں ۔جہاں تک  دور دراز سے پہنچنا ہی مشکل ہوتا ہے ۔

دنیا بھر میں کینسر کے خلاف نہ صرف سائنسی سطح پر تحقیق ہورہی ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بھی تحریکیں چل رہی ہیں ۔عوام ،حکومت ،فلاحی ادارے،مذہبی تنظیمیں اور سوشل میڈیا سب اس مرض کو سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔تو پھر ہمارے ہاں یہ جہاد کیوں نہیں ؟  کیا غریب کا دکھ اتنا خاموش ہے کہ کسی کو سنائی نہیں دیتا ؟ یا پھر ہم سننا ہی نہیں چاہتے ؟ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور اس مرض سے نبردآزما ہونے کےلیے  ہر سطح پر کوششوں کی اشد ضرورت ہے ۔ہر تحصیل کی سطح پر اس مرض کی جانکاری کے ٹسٹ اور شعوری بیداری کی سہولت ضرور ہونی چاہیے ۔دوسری جانب آلودگی ،تمباکو نوشی اور غزائی عوامل پر قابو پانے سے بھی اس خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے ۔

یہ وقت ہے کہ اہل قلم ،اہل درد اور صاحبان اختیار متحد ہو کر اس محدو د  مالی مدد  اور حد   کو بڑھانے کا مطالبہ کریں کہ کم ازکم کینسر جیسے مرض کے لیے مکمل علاج کی سہولت دی جاےیا پھر صحت کارڈ کی حد کو کم ازکم دس لاکھ تک بڑھایا جاۓ ۔ہر مریض کو مفت چیک اپ ،ٹیسٹ ،کیمو تھراپی ،ریڈہایشن اور سرجری کی مکمل مفت سہولت فراہم کی جاۓ ۔سرکاری ہسپتالوں میں جدید مشینری ،ماہر آنکو لوجسٹس اور مناسب سہولیات دی جائیں ۔کینسر کے مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے نفسیاتی ،مالی اور سماجی مدد کے مراکز قائم کئے جائیں ۔کینسر کے مریضوں کی مدد کے لیے  ہر ضلع کی سطح پر خصوصی فنڈ قائم کیا جاۓ ۔میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اس کےاور اس کے علاج کے  بارے میں شعوری بیداری اور آگاہی کی مہم جاری رہنی چاہیے ۔

کینسر کا علاج صرف دوا نہیں ،ہمدردی ،انصاف اور ہمارے  اجتماعی عزم سے ممکن ہے ۔اگرہم نے آج خاموشی اختیار کرلی تو کل کو شاید یہ خاموشی ہماری اپنی دہلیز پر آہ وفغان کی صورت دستک دے ۔ ا ہمیں اس سلسلے میں لکھنا ہو گا ،بولنا ہوگا  ،سوال کرنا ہوگا   اور ایوان بالا تک یہ  آواز پہنچانی ہوگی کہ کینسر کے خلاف جہاد میں غریب عوام کی مکمل صحت یابی تک انہیں   مالی  طور پر تنہا اور بے آسرا نہ چھوڑا جاۓ ۔آئیے انسانیت کا ساتھ دیں اور آواز بلند کریں کہ کینسر کے مریض کے لیے مکمل علاج کی سہولت ہر کسی کو مفت ملنی چاہیے ۔دوسری جانب کینسر کے مریض پورے حوصلے سے اپنا علاج جاری رکھیں کیونکہ ہمیں کینسر سے ڈرنا نہیں بلکہ اس سے لڑنا ہے ۔دنیا میں بروقت علاج اور دعاوں سے بےشمار لوگ کینسر کو شکست دے چکے ہیں تو پھر ہم کیوں شکست نہیں دے سکتے ؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خصوصا” چائنا کے سائنس دان ہمہ وقت اس کے فوری علاج کے لیے مزید تحقیق کر رہے ہیں  اور پر امید ہیں کہ ٹی بی ،جگر ،دل کے امراض کی طرح اس کا بھی فوری سستا اور بہتر علاج دریافت ہو سکے گا ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.