نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کی درخواست پر عدالت نے ان 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو ریاست مخالف مہم چلا رہے تھے ان چینلز میں صحافیوں کے علاوہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کا آفیشل چینل بھی شامل ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے انوسٹی گیشن ایجنسی کی یوٹیوب چینل بلاک کرنے کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اپنے دوصفحاتی تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ ’ریاست مخالف مواد کے حوالے سے این سی سی آئی اے نے دو جون کو انکوائری شروع کی تھی۔‘گزشتہ روز جاری ہونے والےعدالتی حکم نامے سے یہ پتا چلتا ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگشین ایجنسی کے سائبر کرائم سرکل اسلام آباد نے متعلقہ حکام کی منظوری سے یہ انکوائری کی۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کے تحت چلنے والے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے این سی سی آئی اے کی صورت میں ایک نئی ایجنسی قائم کی گئی تھی، جو اب سائبر کرائم سے متعلق تحقیقات کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے پیکا ایکٹ 2016 میں ترامیم بھی متعارف کروائی تھیں۔جن کا مقصد فیک نیوز روکنے کے ساتھ ساتھ ریاست ریاستی اداروں یا کسی فرد کیخلاف بے بنیاد الزامات یاکردار کشی کرنے والے میڈیا کیخلاف کارروائی کی اجازت ہے۔
سی سی آئی اے کے مطابق یہ یوٹیوب چینلز ریاستی اداروں کے خلاف جعلی اور گمراہ کن خبریں نشر کرتے ہیں۔ ’ایسی خبروں سے معاشرے اور عوام میں خوف، ہیجان، نقص امن یا بے امنی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
این سی سی آئی اے کے مطابق جعلی ریمارکس اور اطلاعات کے ذریعے ریاستی اداروں کے حکام کی رازداری کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ این سی سی آئی اے نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ یہ چینلز ریاستی اداروں اور حکام کے خلاف دھمکی آمیز، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پھیلاتے ہیں۔
دراصل یہ چینلز عام عوام اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو ریاستی ستونوں کے خلاف بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ انتشار پھیلانے اور فسادی کلچر کو فروغ دینے کا سبب بن رہے تھے ۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے انکوائری افسرکو سنا اور دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا اور شواہد کی بنیاد پر عدالت سمجھتی ہے کہ یہ معاملہ پیکا ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کے تحت قابل سزا جرم ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ یوٹیوب کے متعلقہ حکام کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کیا جائے
جن چینلز کو عدالت نے بند کرنے کا حکم دیا، ان میں صحافی مطیع اللہ جان، اسد طور، صدیق جان، حبیب اکرم، ساجد گوندل، رانا عزیر، صبحی کاظمی، آرزو کاظمی، عمران ریاض خان، صابر شاکر، آفتاب اقبال، عبدالقادر، وجاہت سعید خان، احمد نورانی، معید پیرزادہ، مخدوم شہاب الدین، نذر چوہان اور شایان علی کے یوٹیوب چینلز بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ سابق وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف اور اوریا مقبول جان کا یوٹیوب چینل بھی بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نیا پاکستان، ریئل انٹرٹینمنٹ ٹی وی، ڈیلی قدرت، چارسدہ جرنلسٹ اور نائلہ پاکستانی ری ایکشن بھی ان چینلز کی فہرست میں شامل ہیں جنھیں عدالت نے بلاک کرنے کا حکم دیا
یوٹیوب انتظامیہ کی طرف سے متعلقہ چینلز مالکان کو ای میل بھی موصول ہوئی ہیں جس میں انہیں چینلز بندش اور اسکی وجہ کا ذکر کیا گیا۔ ای میل کے مطابق مذکورہ یوٹیوبرز نے صرف پاکستانی قوانین کو ہی پامال نہیں کیا بلکہ یوٹیوب گائیڈ لائن کی بھی خلاف ورزیاں کی ہیں ’ایک یوٹیوبر نے موقف اختیار کیا اور یوٹیوب کو جواب دیا کہ جس کو آپ عدالتی حکمنامہ کہہ رہے ہیں یہ کوئی حتمی آرڈر نہیں۔ یہ سزا یافتہ والا معاملہ نہیں ایک پروسیجرل معاملہ ہے اور اگر انکوائری کی بنیاد پر چینل بند ہوئے تو پھر سب چینل بند ہو جائیں گے۔‘
انھوں نے لکھاکہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کا قانون پوری دنیا میں عملدرآمد نہیں ہو سکتا۔
اس طرح کے حکم نامے کی بنیاد پر کسی چینل کو ’ہٹایا‘ نہیں جا سکتا۔بندش کا سامنا کرنے والے یوٹیوبرز کا موقف ہے کہ ’عدالت نے ہمیں سنے بغیر ہی حکم نامہ دیا۔ یوٹیوب کو عارضی احکامات پر چینل بند نہیں کرنا چاہیے۔ یوٹیوب کو ہمیں ایک موقع دینا چاہیے۔‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ یوٹیوبرز کو نہ صرف عدالتی حکم نامے ہر بلکہ یوٹیوب کے فوری ایکشن پر بھی اعتراض ہے
یوٹیوبرز کا موقف ہے کہ ’اگر اس طرح حکومتوں کے کہنے پر چینل بند ہونا شروع ہوئے تو پھر یہ کوئی تحفظ نہیں اور اس سے یوٹیوب کی ساکھ شدید متاثر ہو گی۔‘
ایک یوٹیوبر کاموقف ہے کہ ایسا حکم نامہ دیا ہی نہیں جا سکتا۔ ان کی رائے میں یہ ایک ماتحت عدالت ہے، یہ کوئی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس تو نہیں کہ اس کا حکمنامہ پوری دنیا پر لاگو ہو جائے۔
تحریک انصاف نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اپنی حد سے تجاوز کیا ہے اور اس عدالتی فیصلے میں دنیا بھر میں یہ چینلز بند کرنے کا کہا گیا ہے۔
اس حوالے سے سامنے والی آرا اور تجزیوں کو دیکھا جائے تو تقسیم واضح نظر آٹی ہے۔ صحافت سے تعلق رکھنےسینئر لوگوں کا ماننا ہے کہ آزادی اظہارائے کی آڑ میں مادر پدر آزادی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جبکہ ایک مخصوص سوچ کو لیکر ریاست اور ریاستی اداروں پر منفی ریمارکس دینے والے دھڑوں کو نہ صرف عدالتی فیصلے پر اعتراض ہے بلکہ یوٹیوب انتظامیہ کی گائیڈ لائن کو بھی شکوک شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اگر مذکورہ یوٹیوبرز سمجھتے ہیں کہ انکے مواد میں قابل اعتراض کوئی بات نہیں ہوتی تو وہ اپنی کوئی ایک آدھ وڈیو کسی ڈیجیٹل چینل پر چلا کردکھائیں جن سے وہ منسلک ہیں