۔۔۔۔اپریشن “بنیان مرصوص” سے سیز فائر تک۔۔۔

۔تحریر: امجد علی

1

22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے نے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے برصغیر کو ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ حملے میں 26 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، جس کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی تیزی سے شدت اختیار کر گئی۔ عالمی برادری کی خاموشی، اور خطے کے اندرونی دباؤ نے صورتِ حال کو اس حد تک پہنچا دیا جہاں صرف ایک چنگاری پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی تھی۔
اسی دوران سات مئی کو بھارت نے “آپریشن سندور” کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں میں حملے کیے۔ بہاولپور، مریدکے، سیالکوٹ، اور مظفرآباد میں واقع مساجد و مدارس کو دہشت گردی کے نام پر نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد فضاؤں میں ایک ہولناک تصادم ہوا۔۔مختلف رپورٹس کے مطابق 180 بھارتی لڑاکا طیارے اور 42 پاکستانی جیٹ ایک مہلک فضائی جنگ میں مدمقابل آئے۔ بھارت نے رافیل طیاروں سے SCALP میزائل اور AASM ہتھیار استعمال کیے، تو پاکستان نے “آپریشن بنیان المرسوس” کے تحت چینی ساختہ J-10C طیاروں اور PL-15 میزائلوں کا مؤثر استعمال کیا، جس میں بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے گئے، جن میں ایک جدید رافیل بھی شامل تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب دنیا نے محسوس کیا کہ جنوبی ایشیا میں جنگ کا مطلب صرف بارود اور ہتھیار نہیں، بلکہ عالمی توازن کا بکھر جانا ہے۔ رافیل کی تباہی نے نہ صرف بھارتی فضائیہ کی ساکھ پر سوال اٹھایا بلکہ فرانسیسی دفاعی صنعت کے اعتماد کو بھی جھنجھوڑ دیا۔
اس شکست کی خفت کو کم کرنے کے لیے بھارت نے متعدد علاقوں پر ڈرونز اور میزائل اٹیک کے علاؤہ پاکستان کے نور خان ایئر بیس کو نشانہ بنایا، جس سے پاکستان کی جوہری تنصیبات کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب پاکستان نے دفاعی حکمت عملی اور تحمل کی بجائے offensive سٹریٹجی کو اختیارکیا۔ پھر پاکستان نے حیرت انگیز طور پر تیز، مربوط اور بغیر کسی جانی نقصان کے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی تنصیبات کو نشانہ بنایا، چندی گڑھ ویپن ڈپو، سری نگر ایئر بیس، گجرات، راجستھان، اڑی، ادھم پور اور ایس-400 سسٹمز سبھی چند گھنٹوں میں مٹی کا ڈھیر بن گئے۔
صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے یا کسی خفیہ انٹیلیجنس رپورٹ کی بنیاد پر امریکہ نے بالآخر عملی اقدام کیا۔ حالانکہ ابتدا میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور دیگر حکام کا مؤقف تھا کہ یہ معاملہ بھارت اور پاکستان کا اندرونی تنازع ہے، مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ راتوں رات منظرنامہ تبدیل ہو گیا؟ ایک معمولی فضائی جھڑپ نے نہ صرف بھارتی فضائی برتری کا بت پاش پاش کر دیا، بلکہ اس کے جنگی غرور کو بھی خاک میں ملا دیا۔ دی ٹیلی گراف میں شائع ایک مضمون کے مطابق، رات تقریباً چار بجے سفارتی حلقوں میں ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ چند ہی لمحوں بعد جی ایچ کیو کو ایک ہنگامی کال موصول ہوئی، جس کے نتیجے میں جوابی ردعمل کا فوری اور مؤثر منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ دنیا نے اس کے اثرات جنگی فضاؤں میں اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ بھارت کا رافیل زمین بوس ہو گیا، مگر درحقیقت یہ صرف ایک طیارہ نہیں گرا، بلکہ بھارت کے مذموم عزائم راکھ ہو گئے۔ وہ جنگ تو وہیں ختم ہو چکی تھی۔ بھارت ہار چکا تھا، اس کی فضائی برتری قصہ پارینہ بن چکی تھی۔ یہ شکست صرف بھارت کی نہیں تھی، بلکہ رافیل بنانے والی فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن، فرانس، اسرائیل اور پورا یورپی جنگی اتحاد، جو جو اس میں شامل تھے ان سب کی ہوئی۔ پاک فضائیہ کے دلیر شاہینوں نے چینی ساختہ PL-15 میزائلوں کے ذریعے رافیل کو ایسا نشانہ بنایا کہ نہ صرف بھارتی غرور زمین پر آ گرا، بلکہ چین کی ٹیکنالوجی کو بھی ایک نئی عالمی شناخت مل گئی۔ بھارت کی شدید عسکری خفت کو دیکھتے ہوئے, امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے “مکمل اور فوری سیز فائر” کا اعلان کیا۔ یہ اعلان امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر وینس کی قیادت میں ہونے پوری رات جاری رہنے والی سفارتکاری کا نتیجہ تھا۔ بظاہر امن کی یہ دستک انسانیت کے تحفظ کی نوید لائی، مگر اس کے پسِ پردہ ایک زبردست اسٹریٹیجک اور ٹیکنالوجیکل کشمکش نے اپنا رنگ دکھایا۔ پاکستان کی بر وقت ایمرجنسی مینجمنٹ، اعلیٰ فیصلہ سازی، اور جدید نظام جیسا کہ Saab Erieye (AWACS) نے جنگ کے نقشے کو پلٹ دیا۔
جیسا کہ واصف علی واصف فرماتے ہیں:
“جیت ہمیشہ شکار اور ہار شکاری کی ہوتی ہے، کیونکہ شکار کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے، جبکہ شکاری کے لیے یہ محض زبان کی لذت۔”
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان اپنی بقاء، آزادی اور دفاع کے عظیم مقصد کے تحت میدان میں اترا, ایک ایسی جنگ جس میں اُس کے پاس ڈو یا ڈائی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ جبکہ بھارت محض خطے کی تھانیداری کے زعم میں مبتلا ہو کر جنگ کے میدان میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دفاعی عزم اور فکری برتری نے اُسے سرخرو کیا، اور اس کی فضائی قوت نے نہ صرف ملک کا وقار بچایا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ جذبہ، غیرت اور حکمت سے لڑی گئی جنگیں صرف جیتی ہی نہیں جاتیں، بلکہ تاریخ کا رُخ بھی موڑ دیتی ہیں۔
تاہم یہ سوال اب بھی حل طلب ہے کہ کیا اصل مسئلہ حل ہو گیا؟ کیا پہلگام حملے کے اصل مجرموں کو بے نقاب کیا جا سکا؟ کیا اس حملے کے ماسٹر مائنڈز کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا؟ یا پھر سب کچھ اس جنگی شور میں دب گیا؟ پھر ہمیں دو نیوکلئیر ممالک کو جنگ میں دھکیلنے کا کیا اور کس کو فائیدہ ہوا۔ اگر کسی کو بھی نہیں ہوا تو مزید معصوم جانوں کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے۔ کیا بھارتی فیصلہ ساز جن کے جنگی فیصلے کی وجہ سے مزید سولین ہلاک ہوئے۔ تو ان فیصلہ سازوں کو کون کٹہرے میں لائے گا۔ اگر کسی بھی جرم کے ماسڑ مائنڈ کو سزا دینا عین قانون ہے تو معصوم انسانوں کو خون میں نہلانے کے ذمہ داران کو سزائیں کیوں نہیں۔ اگر انڈین قیادت افڑ تھاٹ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.