سب لوگ کڑی دھوپ کے شعلوں میں جلیں گے
جب وقت کے صحرا میں شجر کوئی نہ ہو گا
محمد قاسم راز ایک چھوٹے سے شہر کوٹ ادو کا بہت بڑا شاعر ہے جو بیاض سونی پتی مرحوم جیسے عظیم شاعرکے دبستان ادب میں تربیت پا کر جوان ہوا ہے ۔بیاض سونی پتی مرحوم جیسے بڑے شاعر سے وابستہ ہونا بذات خود کسی اعزاز سے کم نہیں ہے ۔میں قاسم راز کی شاعری میں شامل حمد و نعت ،غزل ونظم سے تو پہلے ہی بہت متاثر تھا اور ان کے متاثر کن اصناف سخن پر قلم اٹھانے کی جسارت کے بارۓ میں سوچ ہی رہا تھا کہ آج کل ماحولیاتی جنگ اور شجر کاری پر ان کی “ادب تھراپی “نے میری سوچوں کا رخ ان کے اس تناظر میں لکھے اشعار کی جانب مبذول کر دیا ہے ۔کہتے ہیں کے شاعر کا حساس دل کبھی ماحول کی تلخیوں سے دور نہیں رہ سکتا ۔قاسم راز کا اپنی شاعری میں وقت کے تلخ ترین مسائل کو ایسے اجاگر کرنا اور اس کے حل کے طریقہ کار کی وضاحت ایسا وصف ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جاۓ کم ہوگی ۔اس سے قبل بےشمار شاعر درخت ،شجر ،پرندوں اور کائنات کے حسن کے بارۓ میں بہت کچھ اپنے اشعار کی زینت بنا چکے ہیں اکثر بطور استعارہ بھی سامنےلاتے رہے ہیں لیکن موجودہ شجر کاری اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں قاسم راز نے در سخن وا کرکے اپنی انفرادیت کا لوہا منوا لیا ہے ۔شاید یہ پہلا شاعر ہے جس نے اس نازک موضوع پر بےباکانہ رویہ اپنایا ہے ۔کاش ایسا شاعر کسی چھوٹے سےقصبے کی بجاۓ کسی بڑے شہر میں جنم لیتا تو بے پناہ شہرت کی بلندیاں اس کا مقدر بن چکی ہوتیں ۔
جو اشکوں کو بیج بنا کر پیار کے پودے بوتے ہیں
صدیاں انکی ہو جاتی ہیں وہ صدیوں کے ہوتے ہیں
کسی بھی اچھے شاعر کا سب سے بڑا وصف یہی ہوتا ہے کہ وہ وقت کی اور گزرنے والی ہر گھڑی کی نزاکت اور ضرورت کو نہ صرف سمجھے بلکہ اس بارۓ میں اپنا ادبی اور دانشورانہ کردار ادا بھی کرۓ ۔شاید انہیں اس بات کا ادراک اور احساس اس قدر زیادہ ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی سوچوں اور شاعری کا رخ ہی آج کی اس موجودہ ضرورت کی جانب موڑ دیا ہے ۔جس کے لیے وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ ہرا بھرا سرسبز پاکستان ان کی خواہش اور تمنا ہے۔اس لیے دعائیہ انداز میں اس کا اظہار کرتے دکھائٰی دیتے ہیں ۔یہی وہ “ادبی تھراپی “کا جدید تصور ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہوتی ہے اور جس کے بارۓمیں میں بارہا لکھ چکا ہوں ۔قاسم راز اپنے اشعار میں ایک جانب تو ماحولیاتی تبدیلیوں اور درختوں کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی مشکلات کی نشاندہی کر رہے ہیں تو دوسری جانب بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ترغیب دۓ کر ان مشکلات سے نکلنے کا خوبصورت راستہ بھی دکھا رہے ہیں ۔جو دین و دنیا کی بھلائی کا راستہ بھی ہے ۔
جس جگہ بھی ہو وہیں سرسبز ہو
سبز سوچوں کا امیں سرسبز ہو
زرد چہروں کی مٹاۓ زردیاں
جو مٹاۓ وہ حسیں سرسبز ہو
رحمتوں کی ہر طرف ہوں بارشیں
اور ہر بنجر زمیں سرسبز ہو
ہو مشجر ریگزار بے اماں
ذرہ ذرہ دلنشیں سرسبز ہو
رحمت اللعالمیں کے فیض سے
راز ایماں و یقیں سرسبز ہو
گرمی کی شدت اور پانی کی قلت بڑھتے ہی ماحولیاتی تکالیف کا احساس ہونے لگتا ہے ۔شجرکاری ہر دور میں تحفظ ماحولیات کے لیے کلیدی کردار کی حامل رہی ہے اور شاید ہمیشہ رہے گی ۔آجکل پاکستان بھر میں جنوبی ایشیا کے ممالک کی طرح گرمی کی شدت میں اضافے کی باعث پور ے ملک میں درجہ حرارت پچاس ڈگری تک پہنچتا جارہا ہے ۔جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے گرمی روکنے کے لیے بزرگوں کی قائم شدہ فصیل خود ہی ڈھا دی ہے یعنی اپنے اردگرد گرمی سے پناہ دینے والےقدرت کے حسین تحفے درختوں کو کاٹنا شروع کردیا ہے ،مجھے یاد ہے کہ ایک زمانہ تھا جب ہر گھر میں دو چار درخت ہوتے تھے اور وہ بھی عموما” پھل دار ہوتے تھے ۔لیکن اب تو شہروں میں درخت تو دور کی بات ہے کوئی سرسبز پودا دکھائی نہیں دیتا ۔ہم نے تعمیرات کے بہانے درختوں ،پودوں اور کھیتوں تک کا صفایا کر دیا ہے ۔یہاں تک کہ پرندوں کے آشیانے تک محفوظ نہیں رہے ۔جس کا خمیازہ آج ہمیں گرمی اور بارش سے محرومی یا خشک سالی اور اموات کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔پچھلی گرمیوں میں صرف پاکستان میں سینکڑوں افراد گرمی کی شدت سے جان گنوا بیٹھے تھے ۔قاسم راز اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں اس لیے وہ کہتے ہیں کہ
جلنے لگی ہے دھوپ کی شدت سے زندگی
اۓ زندگی کو چاہنے والے شجر لگا
انسانی زندگی اور انسان کو مطلوب جاندار اور بےجان وسائل حیات کی حفاظت اور بقا ء اور نشوونما کے لیے ماحولیات کا تحفظ بے حد ضروری ہے جو فضا ،زمین اور پانی میں آلودگی کا باعث بنتی ہیں اوران سب کی بنیاد درخت ہوتے ہیں جو سانس کے لیے اوکسیجن ،جسم کو ٹھنڈک ،اور پینے کے صاف پانی کے لیے بارش کو دعوت دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ درخت اور سرسبزپودے پھل اور پرندۓ تو جنت کی نعمتوں میں سے ایک شمار ہوتے ہیں ۔مشہور صوفی گلوکار پٹھانہ خان کی سرزمین کوٹ ادو کے اس بزرگ شاعر قاسم راز نے اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ۔۔۔
پرندوں سے پرندےکہہ رہے ہیں
شجر گم ہیں عذاب بےگھری ہے
آج پوری دنیا کے ہر مکتبہ فکر کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ ہم نے درخت کاٹ کر اپنے پیر پر خود ہی کلہاڑی مار دی ہے اور خود کو صاف پانی اور صاف فضا سے محروم کر لیا ہے ۔شجر کاری کے لیے ہر سطح پر کوشش کی جارہی ہے ۔لوگوں کو یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ موجودہ ماحولیاتی جنگ صرف شجر کاری کے ہتھیار سے ہی جیتی جاسکتی ہے ۔”ادبی تھراپی “کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں تک