تحبیب کا پیغام ،شارٹ کٹ شاعروں کے نام

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ 0300-6668477

4

ادب ہمیشہ سے ایک سنجیدہ، صبر آزما اور تخلیقی ریاضت کا نام رہا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں لفظ محض آواز نہیں بلکہ روح کی صدائیں ہوتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس بار سال 2025 میں بھی تحبیب لٹریری فیسٹیول دنیا بھر میں ہونے والے ادبی میلوں میں اپنا منفرد مقام برقرار رکھتے ہوئے ، ایک بار پھر اعلیٰ شاعری کے متلاشی قارئین اور سامعین کے دلوں پر دستک دینے آ رہا ہے۔ لیکن اس بار بھی وہی سوال سائے کی طرح ہمارے ساتھ چل رہا ہے: کیا واقعی ہم ادب کے حق داروں کو وہ مقام دے رہے ہیں جو وہ دیانتداری سے مستحق ہیں؟ اور کیا ہمیں ایسے شارٹ کٹ عناصر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت نہیں جو اس سنجیدہ روایت کو سطحی تفریح میں بدلنے کے درپے ہیں؟۔تحبیب کوئی عام ادبی فورم نہیں، بلکہ یہ ایک فکر، ایک رویہ اور ایک مزاج ہے۔ اس ادارے کی بنیاد اس نیت پر رکھی گئی تھی کہ شاعری کو اس کی اصل روح، اس کی معنویت اور وقار کے ساتھ پیش کیا جائے۔ اس کا ہر انتخاب اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہاں صرف وہی شاعر مدعو کیا جاتا ہے جو واقعی شاعری کے کڑے معیار پر پورا اترتا ہو۔ طارق فیضی، جو تحبیب کے روحِ رواں ہیں، نے اپنے پیغام میں جس صاف گوئی سے “مشاعرہ بازوں، اداکاروں اور جعلی شارٹ کٹ شعرا” کو مخاطب کیا ہے، وہ نہ صرف ان کی جرات مندی کا ثبوت ہے بلکہ یہ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ تحبیب کسی صورت معیار پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔شاعر کی اصل پہچان اس کا کلام ہوتا ہے، نہ کہ اس کی سوشل میڈیا فالوئنگ، مشاعروں میں داد سمیٹنے کی اداکاری یا کسی سیاسی ،سماجی یا ثقافتی تعلق کی بنیاد پر حاصل کردہ نمائش۔ تحبیب کا یہ مؤقف لائقِ تحسین ہے کہ وہ شاعری ہی کو شاعر کی واحد سند تسلیم کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہر سال جب تحبیب ان شاعروں کی فہرست جاری کرتا ہے جنہیں فیسٹیول میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے، تو ادبی حلقے نہ صرف اس فہرست کا شدت سے انتظار کرتے ہیں بلکہ اسے سند کی حیثیت بھی دیتے ہیں۔آج کے دور میں شارٹ کٹ شاعری کا ایک نیا اور خطرناک رجحان ابھر آیا ہے۔ کچھ لوگ ایک آدھ مصرعے، ایک آدھ جملے کو “کلام” کا درجہ دے کر اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیتے ہیں۔ ٹی وی پر آنے، ریڈیو پر سننے، یا یوٹیوب پر چند ہزار ویوز حاصل کرنے کو “ادبی مقام” سمجھ لیا گیا ہے۔ مشاعرے اب بعض جگہوں پر محض تفریحی شو بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جس کے خلاف تحبیب نے اپنے رویے سے مزاحمت کی ہے۔
طارق فیضی نے ان نام نہاد شعرا کو جو مشاعروں کو فقط اپنی شہرت کا ذریعہ بناتے ہیں، کھلا پیغام دیا ہے کہ “تحبیب جیسے سنجیدہ پلیٹ فارم پر ان کی دال نہیں گلنے والی”۔ یہ وہ جملہ ہے جو محض انکار نہیں بلکہ پورے ایک ادبی مزاج کی نمائندگی ہے۔ اس پیغام کا مقصد ادب کے نام پر ہونے والی تجارت کو بے نقاب کرنا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ہر فن میں تفریح کا پہلو ہوتا ہے، لیکن جب تفریح، فن کی اصل روح کو نگلنے لگے تو خطرے کی گھنٹی بج اٹھتی ہے۔ شاعری ایک لطیف فن ہے، جسے زندگی کی پیچیدگیوں، روح کی گہرائیوں اور معاشرتی تناظر میں پرکھا جاتا ہے۔ یہ فن کسی کے چہرے کے تاثرات، مائیک کی گھن گرج یا لباس کے اسٹائل سے بلند تر ہوتا ہے۔ جو شاعر ان چیزوں کو شاعری پر فوقیت دیتے ہیں، وہ نہ صرف خود کو بلکہ اپنے سامعین کو بھی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔تحبیب کی ترجیح: اعلیٰ شاعری اور فکری پرواز ہے۔
تحبیب کا اعلان ہے کہ شاعری ہی شاعر کا تعارف ہے۔ یہی اصول اس ادارے کا سرمایہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فہرست جاری کی جاتی ہے، تو اس میں شامل شعرا کے کلام کو بعد ازاں باقاعدہ طور پر قارئین اور سامعین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک تقریب نہیں بلکہ ایک ادبی تجربہ ہوتا ہے جو روح کو جلا بخشتا اور فکر کو نئی پرواز عطا کرتا ہے۔ یہی وہ روایت ہے جسے تحبیب ہر حال میں زندہ رکھنا چاہتا ہے، اور یہی وہ ذمہ داری ہے جو ہم سب کو مل کر نبھانی ہے۔
طارق فیضی کا یہ جملہ کہ “اگر یہ لوگ ادب پر کوئی احسان کرنا چاہتے ہیں تو تحبیب جیسے سنجیدہ پلیٹ فارمز سے دوری اختیار کر لیں”، بظاہر تلخ لیکن حقیقت میں ادب سے مخلصی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ بعض اوقات ادب کو بچانے کے لیے کچھ چہروں کو باہر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ دروازے بند کرنے کی بات نہیں بلکہ اصل تخلیق کاروں کے لیے جگہ بنانے کی جدوجہد ہے۔
یہ خوش آئند امر ہے کہ تحبیب کے اس کڑے معیار کو سنجیدہ ادبی حلقے نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ اسے وقت کی ضرورت بھی قرار دیتے ہیں۔ جب معاشرے میں ہر شے کو تفریح بنا دیا گیا ہو، جب ہر فن کو مارکیٹ کی آنکھ سے دیکھا جا رہا ہو، ایسے میں اگر کوئی ادارہ تخلیقی سچائی کی بات کرتا ہے تو وہ یقیناً ہماری حمایت، تحسین اور شکرگزاری کا مستحق ہے۔
ادب ایک مسلسل ارتقاء کا عمل ہے، جس میں روایت بھی شامل ہے اور تجدید بھی، مگر یہ ارتقاء اس وقت ہی بامعنی ہوتا ہے جب اس کی بنیاد سچائی، خلوص، اور فن کے احترام پر ہو۔ شارٹ کٹ شاعری کے اس شور میں تحبیب جیسے ادارے وہ چراغ ہیں جن کی روشنی سے ہم سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکتے ہیں۔ آئیں، ان چراغوں کو بجھنے نہ دیں۔ اگر آپ بھی ادب کے ساتھ سنجیدہ ہیں تو شارٹ کٹ شاعروں کی حوصلہ افزائی بند کریں، اور تحبیب جیسے پلیٹ فارمز کا ساتھ دیں، کہ یہی وقت کی ضرورت ہے، اور یہی اصل ادب کا تقاضا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.