سمندر پار پاکستانیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دیار غیر میں پاکستانی اپنے وطن عزیز کی معاشی زلف پریشان کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ، لیکن یہاں بات دیار غیر کی نہیں دیار حبیب کی ہے ہم بڑے خوش نصیب ہیں کہ سعودی عرب کی سرزمین ہمارے لیے اپنے وطن عزیز سے بھی زیادہ عزیز ہے مولائے کریم ہم سب کو دیار حبیب کی زیارت اور شرف سے مشرف فرمائے آمین ، پاک سعودی عرب تعلقات کے خوشگوار لمحات اور متبرک گھڑیاں محترمہ خدیجہ ملک کا گرانمایہ سرمایہ ہیں ، دیار حبیب میں پاکستان کی نیک نامی اور خوشگوار تعلقات کی بانی محترمہ خدیجہ ملک محبت، اخوت، رواداری اور محبت کی چلتی پھرتی سفیر ہے آپ کے قرطاس اعزاز پر کئی اعزازات ثبت ہیں اپ نے ہر شعبہ ہائے زیست میں میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں محترمہ خدیجہ ملک کی سرشت میں خدمت کی خوئے دل نوازی موجود ہے ، اور یہ خوئے دلنوازی محترمہ نے کسی مارکیٹ سے نہیں خریدیں اس کا تعلق اعلیٰ خاندان اور اعلیٰ روایات سے ہے ، خدیجہ ملک کے بزرگ پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد سے سے تعلق ہی نہیں رکھتے بلکہ فیصل آباد ہی ان کا ہے ، ملک عبدالغنی چوھدری کو کون نہیں جانتا ، انڈیا سے ھجرت کر کے آئے تھے اور انہوں نے تحریک پاکستان میں بڑی قربانیاں دی تھیں ،
خدا وہ روز بد دشمن کو بھی نہ دکھلائے
قفس کے سامنے جلتا تھا آشیاں اپنا
ہجرت کر کے سعودی ملک عبدالک ملک عبدالغنی میرے والد صاحب دادا غلام نبی فیصل آباد کے پہلوان معروف تھے چوھدری شیر علی شیخ اعجاز یہ سارے خدیجہ ملک والد صاحب کے بہت قریبی ساتھی ہیں خدیجہ ملک کا خاندانی پس منظر بڑا شاندار اور مؤثر ترین شخصیات پر محیط ہے ، خاندان کی یہ پہلی خاتون ہے جس نے خدمت خلق کے میدان میں گرانمایہ کام کیا ہے اور سعودی حکومت نے بارہا موصوفہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں اسناد ، ایوارڈز اور تمغات سے نوازا ہے اور یہ پاکستان کی نیک نامی کی چلتی پھرتی اخوت و رواداری کی سفیر ہے ، خدمت خلق ، سیاست اور میڈیا کے میدان میں خدیجہ ملک کا نام حلق سے نکلتا ہے خلق تک جاتا ہے اور آج جدید عہد کے ابلاغی ویپنز نے اسے فلک الافلاک تک پہنچا دیا ہے ، سعودی عرب الحمدللہ خدیجہ نے وہ نام کمایا ہے جس کی حسرت بڑے بڑے لوگوں کے دلوں میں کروٹیں لیتی ہے ، خدیجہ ملک کے کارناموں پر مبنی اگر دستاویزی فلم بنائی جائے تو پاک سعودی تعلقات میں ایک گونہ دائمی تعلق اور فخر و ناز کی تاریخ رقم ہو گی ، خدیجہ ملک کے دو بیٹے جو سعودی ہیں ، فرزند رشید یو کے میں تعلیم حاصل کر رہا ھے اور ماشاءاللہ چھوٹا بیٹا شیخ ، عالم ، خطیب بن رہا ہے سعودی عالم بننا کسی بڑے سے بڑے منصب سے کم نہیں ، یہاں میں اپنے محسن شیخ سعید کا ذکر نہ کروں تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی جن کی مشاورت اور قدم قدم پر میرے لیے راہ ہموار کرنا اور رہنمائی کرنا میں سمجھتی ہوں ان کی رہنمائی اور ان کی حوصلہ افزائی میرے لئیے مسیحائی سے کم نہیں ہے ، مجھے اپنے اس محسن کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا جو لوگ محسن کو بھول جاتے ہیں یا محسن کو چھوڑ دیتے ہیں اور وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہوتے ہیں محسن دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے شہید دوسروں کے لیے جان دے دیتا ہے دونوں کا کردار برابر ہے ، گزشتہ روز سعودی عرب میں مقیم عثمان آل الطاف سعود جو ہمارے استاد جوان سال ماہر تعلیم فہد عباس کے رفیق اور صدیق ہیں ان کے ساتھ رحمٰن فاؤنڈیشن کا ایم او یو ہوا ہے اور اس سلسلے میں محترمہ خدیجہ ملک کی خدمات بھی رحمٰن فاؤنڈیشن کے لیے خوش آئند ہیں میری جب ان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں خود رحمٰن فاؤنڈیشن کا میڈیا کے افراد کے ساتھ دورہ کروں گی اور یہاں سے مخیر حضرات لاؤں گی مجھے معلوم ہوا ہے کہ عجوبہ ء روزگار معالج ڈاکٹر وقار احمد نیاز سعودی عرب 11 سال مسلسل آتے رہے ہیں کرونا سے پہلے ، ایک دن جدہ، ایک دن مکہ اور ایک دن مدینہ منورہ گردوں کے امراض میں مبتلا مریضوں کو دیکھتے رہے ہیں اور آج بھی گردوں کے مریض اپنے بستر علالت سے لے کر آسماں کی نیلگوں وسعتوں تک اپنے مسیحا کی راہ تک رہے ہیں ،
عزرائیل کو یہ ضد ہے کہ جان لے کے ٹلوں
سر بہ سجدہ ہے مسیحا کہ میری بات رہے
انشاءاللہ یہ سلسلہ دوبارہ جہاں سے ختم ہوا تھا وہیں سے شروع ہوگا اور ہم رحمٰن فاؤنڈیشن جس کے زیر اہتمام گردوں کی صفائی کے پاکستان میں 11 مرکز ہیں سعودی عرب میں بھی رحمٰن فاؤنڈیشن کا وجود آپ محسوس کریں گے عثمان آل الطاف سعود جیسے حب الوطنی کے پیکر اور خدمت انسانیت کے چلتے پھرتے سفیر غنیمت ہیں ، خدیجہ ملک پر کتاب لکھنے کا اعزاز اور شرف مجھے حاصل ہو رہا ہے اور بہت جلد یہ کتاب منظر عام پر آئے گی اور پاک سعودی تعلقات کے حوالے سے مدینہ منورہ میں ہمارے ہمدم و دمساز ڈاکٹر خالد عباس الاسدی کی مشاورت بھی اس کتاب کی اشاعت میں کامیابی اور کامرانی کی کلید ثابت ہوگی آپ کا مشہور شعر جو نعتیہ حوالے سے دنیا بھر کے نقابت کرنے والوں نے حرزِ جاں بنا لیا ہے
لفظ جب تک وضو نہیں کرتے
ہم تیری گفتگو نہیں کرتے
جاری ھے