ابھی چند دن قبل پاکستان سمیت دنیا بھر میں تھیٹر کا عالمی دن منایا گیا اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہوتا ہے
تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔ ہمارے ہاں تھیٹر کی ابتدائی دور آٹھارویں صدی کا وسط لکھا اور بتایا گیا شروع میں یہ بادشاہوں کے درباروں اور امراء کے ڈیروں تک محدود رہا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ وسعت اختیار کرتا گیا اور عام عوام کیلیے بھی سستی تفریح کا سامان فراہم کرنے لگا
جدید تھیٹر میں جہاں اور بہت سی تبدیلیاں رونماہوئیں وہاں فحاشی کا عنصر بھی در آیا
ذومعنی جملوں اور نیم عریاں رقص نے تھیٹر کو طوائف کے کوٹھے کے قریب لاکھڑا کیا جس کے نتیجے میں فیملیز نے آہستہ آہستہ تھیٹر ہالز کارخ کرنا چھوڑ دیا اور یہ فن اب محض تماشبینوں کی جبلی تسکین کا باعث بننے لگا جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا توپنجاب کی حکمران جماعت کو بھی نوٹس لینا پڑا گزشتہ چند دنوں سے صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات عظمیٰ بخاری تھیٹرز پر چھاپوں اور تھیٹرز کو سیل کرنے کے حوالے سےالیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور اخباری شہہ سرخیوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ کیونکہ وہ پنجاب کے تھیٹرز میں ہونے والی بے ہودہ جملے بازی، بے ہودہ ڈانس، بےہودہ لباس، گندی فقرے بازی اور فحش گفتگو کے خلاف برسر پیکار ہیں جو ایک احسن اقدام ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو، وزیر اعلیٰ پنجاب جناب مریم نواز شریف اور دیگر صاحب اختیار حکام کو اس پر بھی توجہ دینی ہو گی کہ تھیٹرز کی بندش اور سیل کرنے کئی فنکاروں، ہنرمندوں اور محنت کشوں کا سلسلہ روزگار بند ہو جائے گا جو ایک پریشان کن اور اذیت دہ عمل ہو گا۔ کیا اس کے بارے میں اعلیٰ حکام نے کوئی حکمت عملی مرتب کی گئی ہے۔ اگر اس جواب “ہاں” میں ہے تو پھر یہ ایک مسلم لیگ ن کا قابلِ فخر کارنامہ ہو گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ماضی کی روایات دیکھتے ہوئے اہسا ممکن نہیں ہےکیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے فنکاروں کے لئے ایک معمولی سا اعزازیہ برسراقتدار لوگوں کے درد سر بنا رہا اور بار بار یا دہانیوں کے بعد دس ہزار یا پندرہ ہزار جاری کیا جاتا ہے، فنکار بیمار ہو جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں فنکار مر جائے تو کفن دفن والا نہیں، فنکار کا مالک مکان سامان گلی میں پھینک دے تو کوئی پوچھے والا نہیں تو ایسے میں بند تھیٹرز کا ایک وہ فنکار جس کی کا آمدن ایک شو کی ایک ہزار یا پندرہ سو ہے اس کے بارے سپشیل ایک پالیسی یا حکمت عملی بنانے کے لئے وقت کہاں ہو گا۔ کیونکہ معذرت کے ساتھ برسراقتدار لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہی کیوں نہ ہو وہ سہولیات کا حقدار صرف اور صرف طاقتور طبقہ کو ہی سمجھتے ہیں وہ طاقت چاہے قلم کی ہو یا پیسے کی ہو حقدار وہی ٹھہرتا ہے، پلاٹس ہو ہاوسنگ سکیم ہو، طبی سہولیات ہوں یا پھر لاکھوں کے امدادی چیک ہوں مقدر انہی کا بنتا ہے۔ کیونکہ میں نے اپنے ساٹھ سالہ زندگی میں نہیں دیکھا کسی سٹریٹ آرٹسٹ جس نے عروج دیکھنے کی امید میں ساری زندگی گزار دی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے بچوں کو سرکاری سرپرستی ملی ہو۔ اس کو پلاٹ ملا ہو اس کو گھر ملا ہو۔ ہاں اس کے مقابلے میں ایک شخص جس کے پاس قلم کی طاقت ہے اور وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہےاس پر نوازشات کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں حکومت کسی بھی جماعت کی ہو کیونکہ ان کے پاس پریشر ہوتا ہے جس کے دباؤ سے اس کی عزت کی جاتی ہے اس کے مطالبات مانے جاتے ہیں فنکاروں کا کیا پریشر ہو گا جو دس پندرہ ہزار والے پروڈیوسر کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ اور ان کو اگر مریم نواز شریف صاحبہ ان کا حق دے جاتی ہیں ان کی حثیت کو سرکاری سطح پر تسلیم کرا کے ان کے لئے کوئی مثبت کام کر کے ان کو اور ان کے بچوں کو جینے کا حق دے دیتی ہیں تو یہ مظلوم اور بےبس طبقہ کچھ دے نہ دے اللہ تعالیٰ اپنی ذات خاص سے نوازے گا۔
چونکہ مریم نواز خود ایک خاتون ہیں اور ایک ذریعہ معاش کے لئے نکلنے والی خواتین کے مسائل کو بھی بخوبی سمجھتی ہوں گی تھیٹرز بند ہونے سے اس گھر کا کیا بنے گا جس کی کفالت وہ خاتون فنکار کر رہی تھی۔ ان بوڑھے والدین کا کیا بنے گا جن کی دوا اس خاتون فنکار کے پیسوں سے آنی تھی ان بچوں کا کیا بنے گا جن کا روزی روٹی اس خاتون کے چند روپوں سے آنی تھی۔ میں مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب عظمیٰ بخاری صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات اور دیگر اعلیٰ حکام کی اس طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ آپ اگر ان لوگوں کو اس دلدل سے نکالنا چاہتے اور ان کو معاشرے کا مہذب اور قابلِ عزت شہری بنانا چاہتے ہیں تو پابندیوں سے پہلے ان کے لئے کوئی حکمت عملی ترتیب دیں۔ جیسے بےنظیر بھٹو نے “بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام” شروع کر کے ہزاروں لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر کر لیا۔ آپ بھی اگر اس بے ضرر مظلوم، لاچار اور بے بس طبقہ کی آواز بننا چاہتی ہیں تو آرٹسٹ سپورٹ فنڈ کے بجائے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا احساس پروگرام میں ہی فنکاروں کو شامل کر کے ان پر احسان کر دیں۔ کیونکہ حکومت کی طرف فنکاروں کے لئے پانچ ہزار کا اعزازیہ انتہائی ناکافی ہے۔ اس سے تو دو دن ہاسپٹل کا کرایہ بھی نہیں پورا ہو سکتا ہے۔ فنکاروں کی تنظیموں کا یہ مطالبہ