اعزازات کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں

عمرانہ مشتاق

4

جب کسی قوم کے دانشور، صحافی، یا ادیب کو قومی سطح پر اعزاز سے نوازا جاتا ہے، تو یہ نہ صرف اُس فرد کے لیے بلکہ پورے علمی و ادبی حلقے کے لیے باعثِ فخر ہوتا ہے۔ یہی روایت پاکستان میں بھی قائم ہے، جہاں تخلیقی اور فکری خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ اسی تسلسل میں سینئر صحافی سلمان غنی، نصراللہ ملک، مزمل سہروردی، حامد رانا، شیبہ حسن، اور سلمیٰ اعوان کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ یہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے اہلِ قلم، دانشور، اور فنکار آج بھی قومی خدمات میں سرگرم عمل ہیں۔

سلمیٰ اعوان کا نام اردو سفرنامہ نگاری میں ایک معتبر مقام رکھتا ہے۔ ان کی تحریریں محض سفر کی داستان نہیں بلکہ ایک عمیق تجزیے اور تہذیبی شعور کی آئینہ دار بھی ہوتی ہیں۔ ان کے سفرنامے قارئین کو ایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں اور مختلف ثقافتوں کو قریب سے سمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ان کا نپاتلا اندازِ بیاں اور مشاہدے کی باریک بینی، اردو ادب میں ایک انمول اضافہ ہے۔ وہ جدید اردو ادب کی اہم ترین شخصیات میں شمار ہوتی ہیں، جو خواتین کے مسائل پر بے باک تحریریں لکھنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ ان کے تخلیقی کارناموں میں مشہور افسانے جیسے ‘خبر ہونے تک’، ‘روپ’، ‘بیچ بچولن’، ‘اک معجزہ میری زندگی کا’، ‘انسان خسارے میں ہے’، ‘وہ ایک تارا’ اور ‘آسمان چپ رہا’ شامل ہیں۔ تاریخی ناول ‘تنہا’ اور ‘لہو رنگ فلسطین’ کے ساتھ ساتھ عراق، روس اور حال ہی میں چین کے سفرنامے بھی ان کی ادبی عظمت کا ثبوت ہیں۔

سینئر صحافی سلمان غنی، مزمل سہروردی، اور نصراللہ ملک بے باک صحافت کا استعارہ ہیں۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی میں ہمیشہ سچائی اور غیر جانبداری کو مقدم رکھا، جو کسی بھی صحافی کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ ان کی گہری بصیرت اور تجزیاتی صلاحیت انہیں دیگر صحافیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کے تحریر کردہ کالم اور ٹی وی تجزیے عوامی مسائل اور قومی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

شیبہ حسن اور سینئر ٹی وی آرٹسٹ حامد رانا بھی وہ نام ہیں جو ہمارے ملک کے فنی ورثے کا روشن باب ہیں۔ شیبہ حسن اور حامد رانا نے ڈرامہ اور تھیٹر کے میدان میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، اور اپنے فن کے ذریعے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان دونوں شخصیات کو بھی ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازا گیا، جو ان کے فن اور محنت کا کھلا اعتراف ہے۔

یہ دونوں فنکار مشہور ڈرامہ “سونا چاندی” میں اپنی شاندار اداکاری کے سبب آج بھی ناظرین کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی فنی صلاحیتوں نے نہ صرف تفریح فراہم کی بلکہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں ایک منفرد مقام بھی پیدا کیا۔

ان ممتاز شخصیات کے اعزاز میں غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدہ تقریب ایک مثبت روایت ہے، جو اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ ہمیں اپنی علمی، فنی، اور صحافتی شخصیات کی خدمات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اس فاؤنڈیشن نے تعلیم کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے، خصوصاً پسماندہ علاقوں میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے ان کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔ ان کے تعلیمی منصوبے نہ صرف نچلے طبقے کے طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں بلکہ معاشرے میں تعلیمی شعور اجاگر کرنے میں بھی معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں صحافت، ادب، اور فنونِ لطیفہ کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، وہاں ایسے ایوارڈز ان شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ لمحات ہمیں اس بات کا احساس بھی دلاتے ہیں کہ ہمارے دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں، اور فنکاروں نے کتنی جدوجہد کی ہے اور ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔

ضروری ہے کہ ہم ان ہستیوں کو محض ایوارڈز تک محدود نہ رکھیں بلکہ ان کے نظریات، خیالات، اور پیغام کو عملی طور پر اپنائیں۔ ایک صحافی یا ادیب کا اصل اعزاز اس کی تحریر اور سچائی کے لیے جدوجہد ہے، اور ایک فنکار کا اعزاز اس کی فنی صلاحیتیں اور تہذیبی خدمات ہیں۔ ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سچائی، دیانت، اور مثبت طرزِ فکر کو فروغ دینا چاہیے، تاکہ ہم ایک بہتر اور باشعور معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

تمام معزز شخصیات کو ان کے اعزازات پر دلی مبارکباد! خاص طور پر محترمہ سلمیٰ اعوان کو ستارۂ امتیاز ملنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ یہ ایوارڈ نہ صرف ان کی ادبی خدمات کا اعتراف ہے بلکہ اردو ادب کے لیے بھی ایک اعزاز ہے۔ اللہ انہیں مزید کامیابیاں عطا فرمائے اور وہ اسی جوش و جذبے کے ساتھ لکھتی رہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.