گزشتہ کالم میں بلوچستان کے حوالے سے کچھ گزارشات عرض کی تھی ۔ کچھ احباب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس پر مزید گفتگو ہو ، خاص طور پر اس تصور پر کے بلوچستان میں مسلح کاروائیاں کرنے والے عناصر کے سرپرستوں کے ذہن میں کیا کوئی اور بھی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے اور اس زمینی حقیقت کے ا ظہر من الشمس ہونے کے باوجود کے وه پاکستان کی جغرافیائی سالميت کو گزند نہیں پہنچا سکتے ہیں مگر پھر بھی خون آلود کرنے پر گامزن ہیں ، آخر ہدف کیا ہے ؟ اور یہ تصور کے ہدف کوئی اور ہے یا ہو سکتا ہے ، آپ کیوں سمجھتے ہیں؟ بات واضح ہے کہ کوئی بھی ہوش مند رهنما ایسی کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کرتا ہے کہ جو اس کے حامی افراد کو لا حاصل مشقت میں ڈال دے ۔ بلوچستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس میں حالات کو خراب کرنے کی کوشش کے حوالے سے اقدامات سے مقاصد اور حاصل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی رہی ہے ۔ اور اس کی تاریخ آزادی کے وقت سے ہی اس حوالے سے واضح نظر آتی ہے ۔ انڈیا آزادی کے ساتھ ہی حیدر آباد دكن کی ریاست کو اپنے میں ضم کرنے کیلئے باؤلا ہوا جا رہا تھا مگر اس کو فوجی کاروائی کرنے کا کوئی موقع ميسر نہیں آ رہا تھا حالاں کہ یہ ایک طے شدہ حقیقت تھی کہ حیدر آباد دكن یا کوئی بھی دیسی ریاست نو آبادیاتی دور کے خاتمہ کے بعد اپنی نام نہاد خود مختاری کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے اور ان کو انڈیا یا پاکستان میں شمولیت اختیار کرنا پڑے گی ۔ مگر اس کے باوجود انڈیا حیدر آباد کو جلد از جلد اپنے میں ضم کرنے کیلئے نت نئی چاليں چلنے میں مصروف تھا ۔ وی مینن انڈیا کے سیکرٹری آف اسٹیٹس ڈیپارٹمنٹ تھے اور ان کے حوالے سے آل انڈیا ریڈیو نے یہ خبر 27 مارچ 1948 کو نشر کی کہ خان آف قلات نے انڈیا میں شمولیت کے لئے درخواست کی تھی جو کہ مسترد کر دی گئی ہے . یہ شوشہ صرف اس لئے چھوڑا گیا تھا کہ پاکستان جلد بازی یا گھبراہٹ کے عالم میں قلات پر کوئی فوجی کاروائی کردے اور انڈیا کو حیدر آباد دكن پر فوجی کاروائی کا جواز مل جاۓ کہ اگر ایک دیسی ریاست کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو دوسری کے ساتھ کیوں نہیں ؟ یہ خبر نشر کرنے کے حوالے سے معروف بلوچ مؤرخ میر گل خان نصیر کہتے ہیں کہ یہ سفید جھوٹ تھا ۔ اس سفید جھوٹ کے اتنے گہرے اثرات مرتب ہوئے کہ خان آف قلات کو فوری طور پر خود اس انڈیا کے دعوے کی تردید کرنی پڑی ، اس مختصر سی گفتگو سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ انڈیا کے مقاصد میں بلوچستان نہیں تھا مگر بلوچستان کے نام کو استعمال کرکے انڈیا اور مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ جب ون یونٹ قایم کیا گیا تو بجا طور پر بلوچ عوام میں اس بات کا احساس پیدا ہوا کہ ون یونٹ کے قیام سے کہی ان کی تہذیب و ثقافت کو گزند نہ پہنچ جاۓ ۔ پھر افسر شاہی کا رويه دور نو آباديات کی مانند ہی تھا ۔ خیال رہے کہ افسر شاہی کے رويه کی شکایات صرف بلوچستان تک محدود نہیں تھی، مسئلہ پورے پاکستان کا تھا بلکہ آج بھی ہے مگر بلوچستان میں غیر بلوچ افسران کی وجہ سے یہ تاثر قایم ہوا کہ ان افسران میں علاقائی تعصب بھی موجود ہیں ۔ ان حالات میں 17 دسمبر 1957 کو قلات میں بلوچ سرداروں کا جرگہ ہوا جنہوں نے ایک چھے نكاتی میمورنڈم خان آف قلات کو پیش کیا ۔ خان آف قلات نے 44 ركنی وفد کی ملاقات کا بندوبست صدر سکندر مرزا سے کیا اور اس ملاقات میں صدر سکندر مرزا نے یہ بھانپ لیا کہ اگر ان کی بات نہ سنی گئی تو بلوچ علاقے شورش کا شکار ہو جائیں گے ۔ سکندر مرزا اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اگر 1956 کے آئین کے تحت عام انتخابات منعقد ہو گئے تو وہ صدر کے عہدے پر براجمان نہیں رہ سکیں گے اور وه ہر قیمت پر عہدہ بچانا چاہتے تھے ۔ بلوچستان کی بے چينی میں ان کو اپنی کامیابی نظر آنے لگی اور ميمورنڈم میں پیش کئے گئے مسائل کو حل کرنے کی بجاۓ ان کو بڑھاوا دے کر وه 1956 کے آئین سے جان چھڑا کر مارشل لا نافذ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے لگے ۔ اور قصہ کوتاہ 1958 تک حالات کو جان بوجھ کر اس حد تک خراب ہونے دیا یا خراب ظاہر کیا کہ قلات میں فوجی آپریشن کر ڈالا ، مارشل لا تو لگ گیا مگر در حقیقت اس مارشل لا کے پہلے شکار خود سکندر مرزا بنے ۔ خان آف قلات کے بیٹے پرنس یحییٰ راوی ہے کہ خان آف قلات نے قائد اعظم سے کہا تھا کہ اگر آپ کے ساتھ کوئی نہیں کھڑا ہوگا تو ہم کھڑے ہونگے ، پرنس یحییٰ نے خان آف قلات کو انگریز کی ایک پیش کش کا ذکر کیا ہے کہ انگریز نے ان کے والد کو آفر کی تھی کہ آپ ہمیں بندر گاہ ، پسنی اور کوئٹہ چھاؤنی تو آپ اردن کی طرح ایک آزاد ملک ہونگے مگر خان نے ان سے کہا کہ ہمیں اردن نہیں چاہئے ہم ایک ملک بنا رہے ہیں ۔ پرنس یحییٰ یہ بھی کہتے ہیں کہ میرے والد کی انگریز کی نظر میں اچھی حیثیت تھی مگر جب انہوں نے پاکستان کی بات کی تو وہ انگریز کی بلیک لسٹ میں آگئے ۔ خان آف قلات میر احمد یار خان کے بیٹے کی گواہی خان آف قلات کے پاکستان کے حوالے سے خدمات کو واضح کر دیتی ہے ۔ یہ بات واضح رهنی چاہئے کہ انڈیا میں تاج برطانیہ کے ماتحت دیسی ریاستوں کے معاملات بہت پیچیدہ تھے ان میں اپنے حوالے سے مختلف تصورات قایم تھے جن کا استعمال ابتدا سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔ انگریز کے چلے جانے کے بعد ان تمام ریاستوں کا انضمام کوئی اگلے ہی دن پاکستان یا انڈیا