پاکستان میں اسلامی مالیات کا ارتقاء ….. ایک جائزہ

تحریر : ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

5

آج کا موضوع پاکستان کے قانونی اور آئینی پس منظر میں اسلامی مالیات کے ارتقاء کا جائزہ لینا ہے، موجودہ چیلنجز کا تجزیہ کرنا ہے، اور ایک عملی حل تجویز کرنا ہے تا کہ ملک میں اسلامی مالیاتی نظام کے نفاذ کو آسان بنایا جا سکے۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ 38 میں سود کے خاتمے کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان نے غیر سودی بینکاری کی جانب قدم بڑھا یا مگر روایتی بینکنگ کے طریقے مکمل طور پر ختم نہ ہو سکے اور مارک اپ سسٹم قائم رہا، جس پر اسلامی ماہرین کی جانب سے تنقید ہوتی رہی۔
1985 میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی کتاب “بلاسود بینکاری میں اسلامی بینکاری کے لیے ایک جامع روڈ میپ پیش کیا جو آج بھی پالیسی سازوں، بینکرز اور اسلامی مالیات کے طالب علموں کے لیے ایک قیمتی دستاویز ہے۔ 1991 میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کو غیر آئینی قرار دیا لیکن بینکاری اداروں کی مزاحمت اور قانونی چیلنجز کی وجہ سے اس پر عملدرآمد میں تاخیر ہوتی رہی ۔ بالآخر 2022 میں وفاقی شرعی عدالت نے پانچ سال کے اندر سود کے مکمل خاتمے کا حکم دیا اور پھر 2024 میں اس فیصلے کو آئینی ترمیم کے ذریعے مزید مضبوط بنایا گیا۔
مگر اس قانون کے نفاذ میں تین بڑے چیلنجز در پیش ہیں :
عوامی قرضوں کی اسلامائزیشن، حکومتی قرضوں کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کے لیے نئے مالیاتی آلات متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ صلاحیتوں کی تعمیر، بینکاری ماہرین اور ریگولیٹرز کو اسلامی بینکاری کے اصولوں پر تربیت دینا ضروری ہے۔ معاشی و سماجی اثرات اس تبدیلی کے دوران بے روزگاری، مہنگائی اور غربت جیسے مسائل کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
اسلامی مالیاتی نظام صرف سود کے خاتمے تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع تر معاشی، سماجی اور اخلاقی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ ہمیں روایتی مالیاتی مصنوعات کو محض شریعت کے مطابق ڈھالنے کی بجائے ایک مکمل نیا نظام تشکیل دینا ہوگا جو شفافیت ، انصاف اور فلاحی اصولوں پر مبنی ہو۔ حقیقی اسلامی معیشت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کے اصولوں پر بنی تھی جہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور استحصال کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ ہمیں اس ماڈل کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ایسا اسلامی مالیاتی نظام تشکیل دینا ہو گا جو غربت کے خاتمے اور کمزور طبقے کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔
بہت سے ادارے صرف نظریاتی علم پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، بغیر اس بات کے کہ طلباء کو وہ خصوصی مہارتیں فراہم کی جائیں جن کی ضرورت موجودہ چیلنجز سے نمٹنے اور نئے حل ایجاد کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس علم کی کمی کی وجہ سے حقیقی اسلامی مالیاتی مصنوعات کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔ ملائیشیائی تجربہ پاکستان کے لیے اہم اسباق بھی اجاگر کرتا ہے۔ اگر چہ ملائشیا میں تعلیمی انفراسٹرکچر اور حکومت کی حمایت کافی ترقی یافتہ ہے مگر یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بغیر مسلسل جدت اور اخلاقی و سماجی اہداف پر واضح توجہ کے ایک ترقی یافتہ ایکوسٹم بھی نا کام ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو ہم نے ابھی تک اس سفر کا آغاز ہی نہیں کیا ہے۔ پاکستان میں ایک اور بڑا مسئلہ ماہر شرعی علماء اور پیشہ ور افراد کی کمی ہے، جس سے مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ بہت سے مالیاتی ادارے ایک محدود شرعی ماہرین کے پول پر انحصار کرتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیئے کہ پاکستان کے شریعت بورڈ ز میں تقریبا 50 % شرعی ممبران ایک ہی گروہ سے ہیں۔ آپ با آسانی تصور کر سکتے ہیں کہ یہ دائرہ کتنا محدود ہے اور اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نئی مصنوعات اور نظام کے لیے کتنے نئے خیالات پیدا نہیں ہو پاتے۔ ہمیں اس دائرے کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے تا کہ بورڈ ز میں نئے اور بہتر اسلامی مالیاتی خیالات رکھنے والے افراد شامل کیے جاسکیں اور نئی مصنوعات کو جنم دیا جا سکے۔ بار بار ایک ہی کتاب پڑھنے سے نئے حل پیدا نہیں ہوں گے، ہمیں اپنی لائبریریوں کو وسیع کرنا ہوگا تا کہ نئے خیالات تخلیقی ذہن اور بہتر حل سامنے آسکیں۔ اس طرح ہی ہم اصل اور حقیقی اسلامی مالیاتی آلات اور مصنوعات تیار کر سکیں گے۔ تعلیمی ادارے اس سلسلے میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ اسلامی فقہ کو جدید مالی نظریات کے ساتھ مربوط کر کے مصنوعات کی ترقی میں قیادت فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ اقدامات اور ادارے مستقبل کے اسلامی مالیاتی رہنماؤں کو وہ مہارتیں عطا کر سکتے ہیں جن کی ضرورت صنعت کے پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے اور نئے حل تلاش کرنے کے لیے ہے۔ تاہم، پاکستان کا موجودہ منظر نامہ اس مثالی صورت حال سے شدید متفرق رکھتا ہے۔ اسلامی مالیاتی نظام کی اسلامائزیشن کا ایک انتہائی اہم چیلنج عوامی اور نجی بیرونی قرضوں کا مسئلہ ہے، جسے بھی حل کیا جا سکتا ہے جب تعلیمی ادارے، صنعت اور ریگولیٹرز ایک ساتھ مل کر نئے آلات اور حل تلاش کرنے کے لیے بھر پور تحقیق کریں ۔ مثال کے طور پر ورک بینڈ فائنانسنگ یا کمیونٹی ڈرائیون انویسٹمنٹ وہ اختیارات ہو سکتے ہیں جن پر ابھی تک نمایاں سطح پر تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ ایسے ماڈلز کے لیے تعلیمی اداروں ، صنعت اور ریگولیٹرز کے درمیان گہری تحقیق اور تعاون کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے بعد ، 2028 تک اس ہدف کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ صرف بیانات اور کانفرنسز سے نہیں، بلکہ ہمیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے تا کہ ہم مل کر اس متعین منزل تک پہنچ سکیں ۔ اس سلسلے میں میں ایک کثیر جہتی حل پیش کرتا ہوں جس کے دو اہم حصے ہیں :
پہلا حصہ: پاکستان میں ایک مخصوص اسلامی مالیاتی فنڈ کا قیام : یہ فنڈ پاکستان میں ایک مضبوط اسلامی مالیاتی ایکوسٹم کی بنیاد ثابت ہوگا۔ میں اسے قومی اسلامی مالیاتی ترقی فنڈ” کہوں گا ۔ یہ فنڈ نہ صرف موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرے گا بلکہ جدت، صلاحیت سازی اور حقیقی شریعت کے مطابق مالیاتی مصنوعات کی ترقی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.