کتاب دوستی اوردشمنی
جمع تفریق۔۔ناصر نقوی
موجودہ جدید دور میں نہ دوستوں کے پاس دوستوں کے لیے وقت ہے اور نہ ہی ازلی دوست کتاب کی فکر، نئی نسل گوگل، واٹس ایپ، فیس بک، ایکس کی دلدادہ ہے کیونکہ یہی ذرائع ہیں جو انہیں نہ صرف مختلف مشکلات سے نجات دلاتے ہیں بلکہ معلومات کا ذریعہ ہیں اس جدیدیت پر ان کا ایمان پختہ ہے اس لیے تحقیق کے لیے کتابوں کی ورق گردانی کی زحمت نہیں کرتے، یہی نہیں فتوی بھی صادر فرما دیتے ہیں کہ،، گوگل،، سے دنیا کی ہر شعبے کی معلومات مل جاتی ہیں اب کتابوں کا زمانہ لد گیا اسی لیے یہ نسل لائبریریوں کا بھی رخ نہیں کرتی ان کا کہنا ہے کہ موبائل کی صورت میں دنیا ہمارے ہاتھ میں ہے تو کتابوں میں سر کھپانے اور وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے بٹن دباؤ معلومات پاؤ بھاری بھرکم کتابیں بس لائبریری کی زینت ہی بنی رہیں یہی ان کی اوقات ہے اب انہیں کون سمجھائے کہ گوگل گائیڈ ہی نہیں مس گائیڈ بھی کرتا ہے حقیقی معلومات تاریخی حقائق اور سیاق و سباق کے ساتھ کتاب ہی فراہم کرتی ہے اج اس کی بے توقیری ہو رہی ہے لیکن صدیوں کی کہانیاں تہذیب و تمدن سے اگاہی اور جنگ و جزل ہی نہیں فتح و شکست کی داستانیں کتاب ہی میں کتاب ہی اپنے سینے میں دبائے بیٹھی ہیں اشرف المخلوقات کا حقیقی دوست کتاب ہی ہے ہم جدیدیت میں بہت جلدی کھو جاتے ہیں حالانکہ ہم ابھی تک ترقی پذیر ہیں طریق یافتہ نہیں ہمیں مفصل خدا اسمانی کتاب بھی ملی جو ہمارا ضابطہ حیات ہے ہمیں تعلیم و تربیت اور علم حاصل کرنے کی تاکید بھی کی گئی ہماری اسلامی تاریخ میں ایسی ایسی تحقیقی کتب موجود ہیں جنہیں ماضی کی ان شخصیات نے ضبط تحریر کیا جنہیں کسی بھی دور میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تہم جو اختلافی اور باعث تنقید ہیں ان کے جواب میں بھی بلند پایا اور منفرد کتاب موجود ہیں پھر بھی ہم اور ہماری نئی نسل جدیدیت کے سمندر میں بہ گئی اور اپنے اسلاف سے بھٹک گئی اج کے دور میں کتابیں لکھی بھی جا رہی ہیں چھپ بھی رہی ہیں اچھا ہی نہیں بہت اچھا کام بھی کیا جا رہا ہے لیکن ہم بھیڑ چال کا شکار ہو کر کوے کی طرح ہنس کی چال چل پڑے اور اپنی بھول گئے یہی وجہ ہے کہ بے تقلی بے توقیری اس نہج پر پہنچ گئی کہ کتابیں فٹ پاتھ پر اداس پڑی ہیں اپنے قدردانوں کا انتظار کر رہی ہیں اور پاؤں کی زینت جوتے خوبصورت شو کیس میں منہ چڑھاتے نظر اتے ہیں کسی ناقدری کی وجہ سے ہزاروں میں چھپنے والی کتابیں اب سینکڑوں تک محدود ہو گئی ہیں 25 کروڑ کی ابادی میں باصلاحیت لکھاریوں منفرد شعراء کرام ڈرامہ رائٹرز ناول نگار اور افسانہ نویس گنتی کے ہیں تاہم شوقیہ منشیوں کی تعداد ان سے زیادہ ہے جو مشاعرے جو معاشرے میں اپنا قد بڑا کرنے کی بیماری میں رقم خرچ کر کے صاحب دیوان اور صاحب کتاب بن جاتے ہیں بلکہ وہ اس درجے کے لکھاری ہے کہ انہیں میں اور اپ معاوضہ دے کر صاحب دیوان اور صاحب کتاب ہونے کا نہ صرف شرف حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اگر چاہیں تو ایسی کتب پر تھوڑی سی بھاگ دوڑ سیاسی اثر و رسوخ اور چمک دکھا کر قومی اور حکومتی اعزاز بھی اپنے نام کر سکتے ہیں بس یہی وہ راز ہے کہ حقدار کو حق نہیں ملتا اور سیانے اپنی طاقتوری دکھا کر اپنے پاؤں اپنے اپ کو نمایاں اور منفرد بنا کر قابل فخر منصب سرکاری مراعات کے ساتھ حاصل کر لیتے ہیں ابھی تو کوئی نہیں پکڑا گیا
ہمارے ہاں تضاد بیانی اور منافقت عروج پر ہے جو کچھ نہیں ،وہ اپنی اسی خاصیت سے سب کچھ ہے، ہم کتاب دوستوں میں اضافہ تو نہیں کر سکے لیکن ہر ادیب ،شاعر، لکھاری کے ساتھ ساتھ دشمنی اندرونی اور بیرونی محاذ پر موجود، ممتازو معروف شخصیات کی زندگی میں پہلے پسند ناپسند ،حسد اور پاؤں رکھ کر آ گے بڑھنے کی خواہش میں دنیائے ادب کے چال باز شاہکار قدم قدم پر طاقتور ہیں حقیقی ادیب ،شاعر اور لکھاری ابھی تک کسمپر سی میں زندگی گزارتے ہیں، تمام عمر کتاب دوستی اور کتاب کی پرورش کرتے ہیں لیکن جو ہی آ نکھ بند ہوتی ہے دشمنی اندرون خانہ ہی نکل آ تی ہے وہ بیگم صاحبہ جن کی پہچان ادب کو منفرد انداز میں تخلیق دینے والا شریک حیات تھا سب سے پہلے اس کی تحریر کردہ کتب اور ریفرنس کی وہ کتابیں جو اس نے جان سے پیاری سمجھ کر اکٹھی کر رکھی تھیں انہیں بےکار سمجھ کر ،،ردی،، بطور اٹھا کر باھر پھینک دیتی ہے میرے یار اسد شہزاد کو زندگی میں ہی یہی دکھ ہے کہ اس کا ایسا،، خزانہ،، سب سے پہلے گھر سے باہر نکالا جائے گا اور اسی کتاب دوستی میں اپنی پرخلوص، خوبصورت اور پل پل اس کے لیے فکر مند ہونے والی شریک حیات کو ،،کپتی،، کہنے کا رسک بھی لے لیا ،جو مجھے بالکل اچھا نہیں لگا اس نے وصیت کر دی ہے کہ اگر اس کا وقت رخصت آ جائے تو اس کی کتابوں کا سارا ،،ذخیرہ،، کسی علمی ادارے یا لائبریری کو دے دینا، اس وصیت پر مجھے ممتاز ومعروف اے ۔حمید یاد آ گئے ان کے ناول، کہانیاں ،کالم رومانی داستانیں ایک نسل کے دلوں کی دھڑکن ہیں، میں جب بھی ان سے ملنے جاتا تو وہ میرے بچوں کے لیے رسالہ ،،تعلیم و تربیت اور کہانیوں،، کا تحفہ دیا کرتے تھے وہ ایک منفرد اور خوبصورت زندگی کی اننگ کھیل کر جہان فانی سے رخصت ہو گئے پہلے تو اپنوں نے مجھے اپنا نہ سمجھتے ہوئے اطلاع نہیں دی، حالانکہ ہم جب بھی ان کے پاس بیوی بچوں سمیت جاتے تو وہ بڑی آ ؤ بھگت کرتے تھے،شکل دیکھتے ہی اپنی محبوب ،،کپتی،، کو حکم صادر کرتے،، ناصر آ یا ہے، جلدی سے،، دم،، والی چائے اور خلیفہ کی خطائیاں لاؤ ،کیک رس بھی ہوں گے، نہیں تو لال کھو ہ والی برفی فریج میں