بیگم نصرت بھٹو کو ہم سے بچھڑے 13 برس بیت گئے

9

روبینہ ملک

امید نو

پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی چیئرپرسن نصرت بھٹو کو ہم سے بچھڑے 13سال ہو گئے۔ ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔ ایران میں پیدا ہونے والی نصرت بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کی اسیری کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا اور وہ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کی حیثیت سے کئی سالوں تک ایک رہنما کردار ادا کرتی رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک ذہین اور نڈر لیڈر تھے انہوں نے پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد جس مدبرانہ اور سیاسی مہارت سے پارٹی کو ملک کی بڑی سیاسی پارٹی بنایا تھا اور پارٹی کو ملک کے طول و عرض میں پذیرائی دلائی۔ آج کی نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔ ان کی گرفتاری کے وقت ایسا لگتا تھا کہ پارٹی کو یکجا رکھنا پارٹی رہنماﺅں کے لئے بہت مشکل ہو گا۔ ایسے کڑے وقت میں بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی تو پیپلز پارٹی کے ورکروں میں خوشی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔
بیگم نصرت بھٹو پارٹی کی چیئر پرسن کیسے بنیں یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔1977ءکے مارشل لاءکے بعد پی پی پی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے 36اراکین میں سے 33کا تعلق جاگیردار خاندانوں سے تھا ۔جب ذوالفقار علی بھٹو محمد احمد خان کو قتل کرنے کی سازش میں بنائے گئے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے تو یہ سوال اٹھا کہ پارٹی قیادت ان کی عدم موجودگی میں کون کرے گا تو ذوالفقار علی نے پارٹی کی پالیسی طے کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ میرے بعد پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین شیخ محمد رشید۔ اس پر بھٹو صاحب سے پوچھا گیا کہ اگر شیخ رشید گرفتار ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں پھر کون چیئرمین ہو گا تو ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ وہ جس کو شیخ رشید نامزد کریں گے۔یہ فیصلہ پیر آف سکھرشریف کے گھر چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی زیر صدارت ہوا۔ لہٰذا جب دوران مقدمہ جناب بھٹو کوٹ لکھپت میں پابند سلاسل تھے تو وائس چیئرمین شیخ محمد رشید نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس صورتحال سے آگاہ کیا کہ اگر اس بحرانی دور میں نے پارٹی قیادت کی تو پارٹی میں شامل جاگیردار جو کہ پس منظر میں جنرل ضیاءالحق کے ساتھ ملے ہوئے ہیں وہ پارٹی کے لئے بحران پیدا کریں گےاس لئے میرے لئے چیئرمین شپ سے زیادہ آپ کی زندگی اور پارٹی کے سیاسی عمل کو جاری رکھنا زیادہ اہم ہے۔
لہٰذا میں ایک تجویز لایا ہوں ایسی صورت میں پارٹی میں تو اختلافات کم ہونگے اور سازشوں کا عمل بھی دم توڑ جائے گا۔ شیخ رشید نے پارٹی چیئر پرسن کے لئے بیگم نصرت بھٹو کا نام تجویز کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو شیخ رشید کی شدید خواہش پر بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کا قائم مقام چیئرمین بنانے پر متفق ہوئے اور دنیا نے ثابت کیا کہ بیگم بھٹو نے دوران مقدمہ پارٹی کو متحد رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ نصرت بھٹو فین روڈ پر واقع میاں محمود قصوری کے گھر کی بالکونی سے دوران خطاب میں اپنی گھن گرج سے وقت حاضر کے تمام درو دیوار کو ہلا دیا۔نصرت بھٹو کے جلسوں کے بعد ایک ایسے نظر آنے لگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی حکومت رہاپڑے گا۔ پیپلز پارٹی کے اہم رہنماﺅں کے ساتھ ملک کی اکثر نامور شخصیات بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ 1977ءمیں نصرت بھٹو پارٹی قیادت نہ سنبھالتیں تو پیپلز پارٹی بکھر جاتی اور اس کے کئی حصے ہو جاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کرانے کے لئے بیگم نصرت بھٹو نے ہر سطح پر سیاسی اور شخصیاتی اثرورسوخ استعمال کیے۔ لیکن فوجی حکومت نے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر ایک بار ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کر دیا گیا تو پھر وہ پہلے سے زیادہ عوامی پذیراتی کے ساتھ حکومت مخالف مہم چلائیں گے اور ان کا راستہ روکنا ممکن نہ ہو گا۔
ایک عظیم شوہر‘ عظیم سیاسی لیڈر اور ملک کے وزیر اعظم کو پھانسی لگنے کے باوجود نصرت بھٹو نے کمال صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ وہ عام خواتین کی طرح ہمت ہار کر نہیں بیٹھیں۔ انہوں نے مارشل لاءدور میں سڑکوں پر لاٹھیاں بھی کھائیں لیکن کبھی ہمت نہ ہاری۔بیگم نصرت بھٹو 1982ءمیں کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں تو اس دوران بھی وہ پارٹی کے لئے وقت نکالتی رہیں۔محترمہ نصرت بھٹو کی زندگی کئی معنوں میں بڑی مختلف اور منفرد تھی وہ ایک وزیر اعظم کی بیوی کی حیثیت سے خاتون اول رہیں ایک وزیر اعظم کی ماں بھی تھیں۔ انہوں نے خاتون اول کی حیثیت سے دنیا کے کئی ممالک کا دورہ کیا ۔زندگی میں اتنی خوشیاں دیکھنے والی اس خاتون کو زندگی نے بڑے وچھوڑے اور غم دکھائے ان کے سامنے ان کے شوہر کو پھانسی دی گئی انہوں نے اپنے بڑے بیٹے شاہنواز بھٹو کا جنازہ دیکھا جسے زہر دے کر قتل کیا گیا۔ پھر انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کو اس وقت قتل ہوتے دیکھا جب ان کی اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھیں اپنے دوسرے بیٹے کے قتل کے بعد وہ ذہنی طور پر کمزور ہوتی گئیں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کے واقعہ میں قتل کیا گیا تو محترمہ نصرت بھٹو کو اس واقعہ سے بے خبر رکھا گیا۔
پیپلز پارٹی کی عظیم رہنما23مارچ 1929ءکو اصفہان میں پیدا ہوئیں اور 23اکتوبر 2011ءکو دوبئی کے ایرانی ہسپتال میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں یوں پیدائش سے موت تک مختلف ممالک میں انہوں نے وقت گزارا۔ان کی وفات پر پیپلز پارٹی کے اکثر رہنماﺅں نے کہا کہ وہ پاکستان میں مادر جمہوریت کہلانے کی حقدار ہیں ۔پاکستان کی پہلی ڈپٹی وزیر اعظم رہنے والی نصرت بھٹو اپنے شوہر کے پہلو میں دفن ہیں۔ یوں 82سال کا ان کا یہ سفر خوشیوں اور غموں کی کئی کہانیوں کے ساتھ ختم ہوا۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا
ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

ساریاں تے نہیں روپ وٹا کے کچھ پھل کلیاں ہو گئیاں

مٹی ہیٹھاں اوھلے خبرے کیہ کیہ شکلاں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.