ڈاکٹر ابرار عمر کی شہکار تخلیق”دوسری بارش”
تحریر : فیصل زمان چشتی
کسی انسان کو تخلیقی جوہر عطا کرتے ہوئے قدرت اس پر حد درجہ مہربان ہوتی ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں اس کے شعور و فکر کو کشادگی اور رفعت عطا کی جاتی ہے۔ یہ ادب کے ساتھ ساتھ انسان کا بھی ارتقائی سفر ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کے فن اور خوبی کے اعتراف کے لیے ظرف کو بڑا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہنرمندی اور فن کی قبولیت کے لیے دل گردہ ہونا چاہیے ۔ تقریبا دس ہزار سالہ انسانی تاریخ میں قدرت نے ارتقاء کا سفر جاری رکھا ہے اس نے کائنات کو بانجھ نہیں کیا نا آگے کرے گی۔ اچھے سے اچھا اور بہتر سے بہتر اس دنیا میں موجود ہوتا ہے صرف تلاش اور پرکھ کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ساتھ اسے اس کا جائز مقام دینا بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ یہی چیز جدت بھی کہلاتی ہے ۔ خدا تعالٰی سب سے بہترین اور سب سے بڑا تخلیق کار ہے اور اس نے یہ خوبی اپنے نائب یعنی حضرت انسان میں بھی رکھی ہے ۔ قدرت انسان کو اس کی ریاضت اور ظرف کے مطابق تخلیقی جوہر عطا کرتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام اس پراسس کو سمجھتی ہیں اور اسے قبول بھی کرتی ہیں اس لئے وہاں تخلیق کاروں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور ان کو معاشرے کا بہترین اور فعال فرد سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس پس ماندہ اور جاہل اقوام تخلیقی پراسس کو سمجھنے سے قاصر ہوتی ہیں یا بوجوہ قبول نہیں کرتی اور اگر کوئی غیر معمولی شخص ان میں پیدا ہوجائے تو بوزنے اسے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ اسے معاشرے سے علیحدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، اس پر زندگی تنگ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں تاکہ یا تو وہ معاشرے سے کنارہ کش ہو جائے یا خود کشی کر لے۔ کیونکہ جو نالائق، نااہل اور بد دیانت لوگ اداروں اور وسائل پر قابض ہوتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کی جگہ کوئی قابل، دیانتدار اور لائق شخص بیٹھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سنجیدہ اور اہل لوگوں کے آگے آنے کی وجہ سے ان کی چھٹی ہو جائے گی۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی انہی معاشروں میں سے ایک ہے جہاں ہر شعبہ زندگی میں نالائق ، بد دیانت اور نااہل لوگ مسلط ہیں۔ صفر کو سو فیصد کرنا اور سو فیصد کو صفر کرنا ان کے بایئں ہاتھ کا کام ہے۔ ہمارے معاشرے کی جہالت اور پسماندگی میں انہی لوگوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔
دیگر تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ شعر و ادب میں بھی یہ کلاس پچھلے ستر سالوں سے اداروں اور وسائل پر قابض ہے اور ہر جگہ پر اپنی اجارہ داریاں قائم کررکھی ہیں۔ ادبی اداروں کے بورڈ آف گورنرز اور ہر قسم کی کمیٹیوں میں یہ لوگ شامل ہوکر فیصلوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ گروپس تشکیل دے کر ہر شاخ پر الو بٹھادیا گئے ہیں۔ کیونکہ یہ خود کمتر تخلیقی اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اور اپنے سے بھی بڑے نالائقوں کو اپنا جانشین مقرر
کر تے ہیں تاکہ حقیقی تخلیق کاروں اور اہل افراد کے راستے روکے جایئں ۔ ان لوگوں نے کئی دہائیوں سے ادب کا ارتقائی سفر روک رکھا ہے اور اس کے بےتکے جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔ وہ ہر جگہ یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ اب وہ شاعر نہیں رہے وہ ادیب نہیں رہے وہ باتیں نہیں رہیں۔ صرف خود کو افلاطون سمجھتے ہیں صرف چند شعراء کو اپنا آئیڈیل بناکر ان کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں اور ان کی شاعری کو ہی ادب کا کل سرمایہ گردانتے ہیں ۔ ادب کے ارتقائی سفر پر فل سٹاپ لگا کر خود مزے کررہے ہیں جس کی وجہ سے جینوئن اور حقیقی تخلیق کاروں کی مسلسل حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور ان کے حقوق پر ڈاکے مارے جارہے ہیں جو ادب کی ترویج و ترقی کے لئے زہر قاتل ہے۔ ادب کے کارپردازوں نے معاصرانہ چشمک، جھوٹی انا اور خود ساختہ رقابت میں ادب کا بیڑا غرق کر دیا ہے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ نوجوان تو درکنار سینئرز کے کام کو درخوراعتناء نہیں سمجھا جارہا۔ من پسند افراد آگے لائے جارہے ہیں اور انہیں ہی پروموٹ کیا جاتا ہے مشاعروں اور کانفرنسز (جو ادب کی ترویج کی بجائے اس کے زوال کا باعث ہیں ) میں بھی انہی لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اگر من پسند افراد کے علاوہ کوئی آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے تو طرح طرح کے الزامات لگا کر اسے منظر نامے سے آوٹ کردیا جاتا ہے۔
اتنی طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ ادبی منظر نامے سے کچھ واقفیت حاصل ہوسکے۔
اسلام آباد کے ادبی افق پر چمکتی ڈاکٹر ابرار عمر کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ سینئر شعراء کی فہرست میں معتبر مقام و مرتبے کے حامل ہیں اور نوے کی دہاٸی کے نہایت عمدہ اور منفرد اسلوب کے دبنگ شاعر ہیں جنہوں نے نوجوانی میں ہی بہترین اور اعلٰی ادب تخلیق کیا جو ان کی اعلٰی شعری تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر بھی تھا لیکن وہ چاپلوسی، کاسہ لیسی اور خوشامد جیسی صفات سے بالکل پاک تھے۔ اور پر مزید یہ کہ ان کی شاعری کو بےپناہ عوامی پذیراٸی حاصل تھی ۔ یہی وجہ ہوٸی کہ وہ ہمارے ادبی ٹھیکیداروں کی نظر میں کھٹکنے لگے بلکہ چھبنے بھی لگے پھر کیا تھا وہی کچھ کیا گیا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ ہر سطح پر اور ہر جگہ پر ان کی حوصلہ شکنی کی گئی ان کے راستے مسدود کئے گئے ۔ جیسا کہ ایک حقیقی تخلیق کار عام آدمی سے زیادہ حساس ہوتا ہے اسی وجہ سے ڈاکٹر ابرار عمر نے بھی اس برتاؤ کو محسوس کیا اور مڑ کر ریاست اور ریاستی نظام کی طرف دیکھا تو وہاں صورتحال کو اس سے بھی زیادہ ابتر اور مایوس کن پایا۔ وہ اس سسٹم سے مایوس ہونے کے ساتھ ساتھ نالاں بھی ہوگٸے ۔ انہوں نے