تربت… تاریخ کے آئینے میں
تحریر : الیاس چدھڑ
تربت …ایک شہر ہے جو کہ شمالی صوبہ بلوچستان پاکستان میں واقع ہے۔ شہر ضلع کیچ اور تربت تحصیل کا انتظامی مرکزہے۔ شہر صوبہ بلوچستان پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔یہ کیچ دریا کے بائیں کنارے پر واقع ہے جو کہ دشت دریاسے نکلا ہے۔مکران رینج کے شمال اور مشرق میں ساحلی میدان ہیں جو کہ شمال تک پھیلے ہوئے ہیں۔ شہر کجھور کے لئے منڈی ہے جو کہ آس پاس اگائی جاتی ہے اور یہاں کجھور کو پروسیس کرنے کے لئے ایک فیکٹری موجود ہے ۔جوار(چری) جو، گندم اور چاول بھی اگائے جاتے ہیں اور ڈھورڈنگر پالے جاتے ہیں۔ کو ہ مراد ایک درگاہ تربت میں واقع ہے۔یہ ذکریوں کے لئے مقدس جگہ ہے ۔جو یقین رکھتے ہیں کہ محمد جون پری جسے مہدی مانتے ہیں نے یہاں لمبے عرصے تک مراقبہ کیا اور عبادت کی۔ذکری فرقے کے ماننے والے ہر سال 27 رمضان کی رات کو روایتی طور پر اس درگا ہ کا دورہ کرتے ہیں اور اکھٹے ہوتے ہیں۔
یہ شہربلوچی ادب اور لوک داستانوں میں ایک خاص مقام رکھتاہے۔یہ پنوں کا گھر ہے ۔رومانوی داستان سسی پنوں کا ہیرو، پنوں کا قلعہ آج بھی تربت میں دیکھا جا سکتاہے،تربت پر پرانے وقتوں میں مکران کے کچکی قبائل حکمران تھے یہ اس وقت مکران کی ریاست کا صدر مقام تھا اور مکران کے نواب تربت کے نزدیک شاہی قلعہ میں رہتے تھے۔جب ریاست مکران تحلیل ہوئی تربت شہر ڈویژن کا صدر مقام رہا۔تربت کا مطلب “قبرستان کی جگہ ہے”۔
کوہ مراد
نواب مکران کی پرانی جگہ
ناظم کی مسجد
پنوں کا قلعہ جسے میری قلات کہتے ہیں۔
ایبسور ضلع تربت کا اہم شہر ہے۔
ہیپ ڈروک، بلوچی ، ہیپ ڈروک /ایک دریا جو شمال میں پہاڑی پانی اور دوسری طرف کور دریا پر مشتمل ہے
کایا پلٹ…..الٰہ دین کا چراغ جیسی باتیں اساطیری ادب میں تو ملتی ہیں، مگر آج کے اس جدید دور میں ان کا تصوّر بھی محال ہے۔ شہر اور انسانی آبادیاںارتقائی منازل طے کرتے ہوئے قدیم سے جدید شکل میں توڈھل سکتی ہیں، مگر اچانک راتوں رات کسی جادوئی عمل سے ایسا جانا ممکن نہیں۔ تاہم، انسان کوشش کرے، ارادہ مستحکم ہو، تو کچھ کرامات ضرور ہوسکتی ہیں۔
مذکورہ بالا تمہید کی روشنی میںآج کے تربت شہر کےحوالے سے کچھ بات کرتے ہیں۔ یہ شہر تقریباً ایک دہائی قبل تک قرونِ وسطیٰ کی کسی پس ماندہ بستی کا منظر پیش کرتا تھا۔ جہاں ہر وقت دھول مٹّی اڑتی تھی۔ اگرچہ یہاں کچھ کچّی پکّی سڑکیں موجود تھیں، مگر ان خستہ حال سڑکوں پر جا بجا اتنے خوف ناک گڑھے اور کھڈے پڑے تھےکہ ان سے گزرنا محال اور انتہائی دشوار گزار تھا۔ کچّے گھروندے نُما مکانات میں بجلی کا تصور تک نہیں تھا۔ تربت شہر کے مرکزی بازار میں تمام دکانیں کچّی اینٹوں سے تعمیر شدہ تھیں۔تب ہی اس غربت زدہ پس ماندہ شہر میں آر سی سی کی چند پکّی دکانیں، ہوٹلز اور مکانات تعمیر ہوئے، تو علاقے کے مکین حیرت سے دیکھتے تھے کہ مکان اس طرح بھی تعمیر ہوتے ہیں۔ دراصل 2013ء کے انتخابات کے بعد،تربت اور مکران کے باشندوں کی غربت اور پس ماندگی دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (نون)، نیشنل پارٹی اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے مابین ایک معاہدے کے تحت یہ طے پایا کہ پانچ سالہ دورِ حکومت میں پہلے ڈھائی سال نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ ہوں گے، بعدازاں اگلے ڈھائی سال مسلم لیگ (نون) کے صوبائی صدر، نواب ثناء اللہ زہری یہ منصب سنبھالیںگے۔اور اس طرح یہاں کی مقامی آبادی کے مسائل کے حل کے لیے مربوط کوششیں کی جائیں گی۔
تربت، ماضی اور حال کے آئینے میں…
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا تعلق بلوچ سیاست دانوں کی اُس نسل سے ہے، جو بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد کے ساتھ یہاں کی صدیوں کی پس ماندگی دُور کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے جوان ہوئے۔ یوں تو ڈاکٹر عبدالمالک اور اُن کے ساتھیوں کی سیاسی خدمات پورے بلوچستان کے لیے ہیں، لیکن، مکران میں اُن کی خدمات کو زیادہ پذیرائی ملی کہ اُن کا اپناتعلق بھی اسی خطّے سے ہے۔ بلوچستان میں نا مساعد حالات کے باعث یہ علاقہ زیادہ متاثرہوا اور یہی سوچ کر ڈاکٹر مالک نے عوامی خدمات کا سلسلہ اپنے گھر مکران سے شروع کیا۔ متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ پہلے فرد تھے، جو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، اس سے قبل اس منصب پر ہمیشہ کسی بڑے قبیلے سے تعلق رکھنے والا کوئی سیاسی رہنما ہی فائز ہوتا ۔ڈاکٹر عبدالمالک نے وزراتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بیوروکریسی کے اہم عہدوں میں فعال، دیانت دار اور محنتی افسران تعینات کیے۔اپنا پرنسپل سیکریٹری میرنسیم لہڑی کو مقرر کیا، جن کی بلوچستان کے قبائلی معاشرے اور اقدار پر گہری نظر تھی۔یہ لوگ بلوچستان کے تمام علاقوں، خصوصاً مکران ڈویژن کی ترقی کے لیے ایک وژن لے کر آئے، انہوں نے تربت یونی ورسٹی کیچ میں صوبے کے نام وَر ماہرِ تعلیم، پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر کو وائس چانسلر مقرر کیا، جنہوں نے اَن تھک محنت سے اس یونی ورسٹی کو ایک فعال یونی ورسٹی میں تبدیل کرکے تمام مضامین میںتعلیم کی جدید سہولتیں متعارف کروائیں۔ قبل ازیں، یہ یونی ورسٹی بلوچستان یونی ورسٹی، کوئٹہ سے منسلک تھی، مگراب ایک باقاعدہ یونی ورسٹی کا درجہ پاچکی ہے۔ تربت یونی ورسٹی کے قیام سے نہ صرف علاقے میں اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن ہوا، بلکہ اس سے عمومی ترقی اور روزگار کے مواقع بھی میسّر آئے۔تربت کے گرلز اور بوائز ڈگری کالجز میں تعلیمی سرگرمیوں میں مزید اضافہ کیا گیا، خصوصاً تعلیمی اداروں میں طالبات کو زیادہ سہولتیں بہم پہنچائی گئیں۔ سائنس لیبارٹریز، امتحانی ہالز اور تجربہ گاہوں کی تعمیر ہوئی۔ لاء کالج اور میڈیکل کالج کے قیام کے لیے اقدامات کیے گئے۔ تربت میں لائبریری اور نئے کلچرل کمپلیکس تعمیر کیے گئے۔ شہر میں پارکس کے علاوہ بچّوں اور خواتین کے لیے تفریحی مقامات کا انتظام کیا گیا۔پرانے تربت بازار میں بوسیدہ دکانیں گراکر جدید طرز کی دکانیں تعمیر کی گئیں۔ اندرونِ شہر پختہ سڑکوں کے علاوہ کشادہ چوراہے اور فٹ پاتھ تعمیر کیے گئے اور شہر میں جگہ جگہ بلوچستان کی تہذیب و ثقافت کی عکّاسی کے لیے مختلف مجسّمے اور ماڈلز نصب کیے گئے، جس کے بعد شہر کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا۔سوراب، گدر، بسیمہ، ناگ، پنجگور، ہوشاب، تربت اور گوادر سڑک کی تعمیر سے علاقے میں آمد و رفت کی آرام دہ اور جدید سہولت مہیّا ہوگئی۔ نیز،سی پیک رُوٹ کا حصّہ ہونے کی وجہ سے تربت شہر کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
مکران اور تربت شہر کھجوروں کی پیداوار کے حوالے سےبھی معروف ہیں۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق سالانہ دس لاکھ ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے ان علاقوں میں مارکیٹنگ اور پیکجنگ کی سہولت کی عدم دست یابی کی وجہ سے مقامی زمیں داروں کو کھجور کی پیداوار کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا تھا، تواس ضمن میںڈاکٹر عبدالمالک کی کوششوں سے محکمہ زراعت کی جانب سے تربت میں ایک ڈیٹ پراسیسنگ یونٹ قائم کرکے پیکیجنگ کی سہولتیں مہیّا کی گئیں، تاہم عملے کے فقدان اور دیگر وسائل کی کم یابی کے باعث اس یونٹ سے خاطر خواہ فائدہ نہیںاٹھایا جارہا۔ ڈیٹ پراسیسنگ یونٹ میں سالانہ چھے لاکھ ٹن کھجور کی پیکیجنگ کی سہولت موجود ہے۔اگر اس یونٹ کو وسائل مہیّا کرکے نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے، تو اس سے نہ صرف مقامی زمیں داروں کو کھجور کی پیداوار کی مناسب قیمت مل سکتی ہے، بلکہ یہ دیگر صوبوں کی کھجور کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ مقامی افراد کے لیے روزگار کی فراہمی اور زرِمبادلہ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ تاریخی طور پر خطّہ مکران اپنے محلِ وقوع اور خصوصیات کی وجہ سے ماضی قدیم سے آج تک خصوصی اہمیت کا حامل چلا آرہا ہے۔ آریائوں کے حملوں اور عراقی سمیریوں کے ابتدائی دور سے بھی قبل یہاں انسانوں کی آبادیاں رہی ہیں اوراس وقت سے اس خطّے کو مشرق و مغرب کے درمیان ایک سنگم کی حیثیت حاصل ہے۔تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سکندرِ اعظم نے ہندوستان سے واپسی پر دریائے سندھ میں بٹالہ کے مقام پر اپنی فوج کو تین حصّوں میں تقسیم کیا۔ایک حصّہ اپنے سالار، کریٹیرس کے زیر کمان درّہ مُولہ کے راستے ایران کے جانب روانہ کیا، دوسرا امیر البحر، نیرکس کے زیر کمان سمندر کے راستے ساحلِ مکران سے ہوتے ہوئے ایران کے جانب روانہ کیا، جب کہ تیسرا حصّہ، جس میں بہادر جنگجو اور مہم جُو سپاہی شامل تھے، اپنی کمان میں لےکر براستہ بیلہ و مکران عازمِ ایران ہوگیا۔راستے میں مکران فتح کرنے کے بعد یہاں اپنا گورنر مقرر کیا۔ سکندر اعظم کے بعد اس خطّے کی اہمیت کے پیش نظر ہندوستان کے موریا اور ایران کی پارتھی اقوام نے بھی کچھ عرصہ اُسے اپنی مملکت میں شامل کیے رکھا۔ ساسانیوں کے ابتدائی دَور میں یہاں ایران کا قبضہ رہا۔ 644ء میں عربوں نے مکران اور بعدازاں پورے بلوچستان اور سندھ پر قبضہ کرلیا۔ عربوں کا قبضہ تقریباً 400سال برقرار رہا۔ پھر ایک طویل عرصے تک غزنوی اور منگولوں کے زیرِتسلط رہنے کے بعد بالآخر 1410ء میں ایران اور وسط ایشیا سے منگول اقتدار کا خاتمہ ہوا اور یہاں کے حقیقی باشندوں یعنی بلوچوں نے اپنی جداگانہ حیثیت منوالی۔
خان آف قلّات کے دور اقتدار میں مکران گچکی خاندان کے زیرِ نگیں رہا۔اس دوران پرتگیزی، ولندیزی، ایرانی اور افغان اقوام نے بھی اس خطے پر اپنی نظریں رکھیں، مگر ان کو اپنے قدم جمانے کا موقع نہ مل سکا۔کیچ مکران کی سر زمین ہزاروں سال سے ثقافت کا گہوارہ رہی ہے ۔ 1870ء میں برطانوی پولیٹیکل آفسیر گوادر میجر ای موکلر نے نوادرات کی کھوج کے لیے سائنسی بنیادوں پر سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اس وقت تک آثارِ قدیمہ کے بارے میں علم کا دائرہ محدود تھا۔ انہوں نے سر جان مارشل کو کیچ مکران کے دورے کی دعوت دی۔ جنہوں نے اپنے دورے کے بعد سر آرل اسٹین( Aurel Stien)کو آثارِ قدیمہ کی دریافت اور کھدائی کا کام سونپا۔1955ء میں ہارورڈ یونیورسٹی مشن نے ہنری فیلڈ کی سربراہی میں حکومتِ پاکستان کے تعاون سے بلوچستان اور بہاول پور میں ہجری دور کی باقیات کا سراغ لگانے کے لیے مکران کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔بعدازاں،امریکن آرکیالوجیکل مِشن نے 1960ء میں جارج ایف ڈیلز کی سربراہی میں مکران کوسٹل ریجن کا سروے کیا۔ 1987ء سے 1994ء تک ڈی میلانو اٹلی یونی ورسٹی نے فرینچ آرکیالوجیکل مِشن برائے وسطی ایشیا کے ساتھ مل کر، جس کا سربراہ جین کلاڈ گارڈن اور فیلڈ ڈائریکٹر رونالڈ بینیول تھا، علاقے کا سروے کیا۔ اس مشن نے دامان کیچ میں دو علاقے دریافت کیے، جن میں سے ایک میری قلات اور دوسرا شاہی تمپ تھا۔ (میری قلات روایتی طورپر لوک داستان ’’سسّی پنوں‘‘ کے کردار پنوں سے منسوب ہے۔ تربت کیچ کے قریب واقع یہ قلعہ تقریباً منہدم ہوچکا ہے) تحصیل تمپ بلوچستان کے ضلع کیچ کی ایک قدیم اور رقبے کے اعتبار سے بڑی تحصیل ہے، جس میں 40سے زیادہ گائوں اور دیہات ہیں۔اس کی آبادی اس وقت تقریباً 3لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، قیام پاکستان سے قبل بھی تمپ اپنے محل وقوع اور اہمیت کے لحاظ سے اس خطّے کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے، جب کہ اس وقت بھی اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے تمپ بڑی اہمیت کاحامل ہے، کیوں کہ اگر اس کی سرحدیں دو جانب ایران سے ملتی ہیں، تو بل نگور دشت اور تربت سے بھی جاملتی ہیں۔انتظامی طور پر تمپ 1962ء کو تحصیل اور1977ء کو سب ڈویژن قرار دیاگیا۔ شاہی تمپ تربت شہر سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر مغربی سمت میں واقع ہے۔شاہی تمپ کی باقیات ایک چھوٹے سے ٹیلے میں واقع ہیں۔ شاہی تمپ میری قلات کے دوسرے عہد سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ عہد 4000قبل مسیح کا ہے۔ یہاں آبادی کی دو تہیں دریافت ہوئی ہیں ۔ دریافت شدہ برتنوں کا رنگ ہلکا سرخ اور بھورا ہے اور ان کی ساخت نہایت نازک، پتلی اور باریک ہے۔ اس کلچر کے لوگ تانبے کے برتن، اسلحہ، اوزار اور مہریں استعمال کرتے تھے۔ نیز، یہاں سے مختلف قسم کے بے شمار برتن، سنگِ سلیمان، عقیق کے منکے اور لاجورد کے ہار بھی بڑی تعداد میں دریافت ہوئے ہیں۔