ہمارا المیہ

285

ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے کہ ہم اس وقت تک غم و خوشی کی تقریبات مکمل نہیں کرپاتے
جب تک لاکھوں روپے کا کھانا اور فضول رسومات کی ادائیگی نہ کریں۔
ایک عام سی شادی میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کیسے غیر ضروری بیش بہا سرمایہ اور
اسلام کے سرا سر منافی رسومات کی نذر کیا جاتا ہے اس پر تاسف ہی کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں مجھے ایک ایسی ہی شادی کی تقریب میں جانے کا موقع ملا،
جہاں دورانِ گفتگو ایک صاحب فرما رہے تھے کہ اس شادی میں صرف کھانے پینے کی اشیاء پر ایک کروڑ سے زائد خرچہ ہوچکا ہے۔
جب کہ دیگر رسومات کی تکمیل تک پانچ کروڑ سے زائد خرچہ ہوجائے گا۔ یہ باتیں سن کر میں سر پکڑ کر رہ گیا۔ محترم بھائیو! شادی بیاہ کی تقریبات میں یہ خرچہ صرف نام کمانے کے لیے کیا جاتا ہے
حالاں کہ یہی لوگ اللہ کا حق فرض نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ قضا نمازوں کی ادائیگی سےعاجز ہوتے ہیں۔ اس لیے
جیسے ہی قضا نمازوں کی ادائیگی کی بات کی جائے تو یہ لوگ کہتے ہیں وقت ہی نہیں ملتا۔
نہ جانے ان لوگوں کو کیسے کروڑوں کے خرچے اور غیر شرعی رسومات کےلیے وقت مل جاتا ہے۔
کیا ہم لوگوں سے ان رسومات میں اپنی انا اور ضد کے تحت یوں ہی نسل در نسل بے جا قبیح رسومات کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔
اگر ہم شادیوں میں ایک وقت کا پچاس لاکھ کا کھانا کھلانے کے بجائے سادگی سے یہ تقاریب منعقد کریں
اور انھی پیسوں سے شادی کے بندھن میں جڑنے والوں کو کاروبار کےلیے یہ پیسے دیں تو ہماری عورتیں کام کےلیے باہر ہی نہ نکلیں۔ آج کا کتنا بڑا فتنہ اس اقدام سے ختم ہوسکتا ہے۔
جس طرح آج زنا عام اور نکاح مشکل ہوتا چلا جارہا ہے۔ کروڑوں مرد و زن کی عمریں گزر چکی ہیں لیکن ان کی شادیاں نہ ہوسکی ہیں۔ غم کے موقع پر بھی یہی حال ہے۔
ہمیں چاہیے کہ چار ہزار افراد کے کھانے کےلیے دیگوں اور کٹوؤں کے ایصال کرنے کی بجائے انھی پیسوں کو سفید پوشوں کو دے کر درست طریقے سے ثواب دارین حاصل کریں۔
بدقسمتی سے ان رسومات کی جڑیں اس قدر پیوست ہیں کہ کوئی بھی گھر ان کے شر سے محفوظ نہیں۔ آج سوشل میڈیا نے جس طرح بے حیائی اور عریانی کا سیلاب برپا کر رکھا ہے۔
ہر طرف بد کاری کے مناظر عام ہیں۔ بچیوں کی عزت گھر میں بھی محفوظ نہیں۔ کنواری بچیاں مائیں بن رہی ہیں ۔ زنا کی جگہ نکاح فوری طور پر عام نہ کیا گیا تو یہ ہمارے سماج کو سانپ بن کر نگل جائے گا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ذاتی رنجشوں کو مٹا کر آپس میں ذاتی رشتوں کو مضبوط کیا جائے۔ محرومیوں کے باعث آج چار بھائی شادی کے بعد ایک جگہ رہنا تو درکنار ایک دوسرے سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
سیاست، مذہب اور دولت نے ہمیں اس قدر ایک دوسرے سے دور کردیا کہ ہم ہر معاملے میں غیروں کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔
ایک بھائی یورپ میں ہو کر اکثر دوسروں کو یاد کرنا ہی بھول جاتا ہے۔
اس معاشرتی تفریق نے ہمیں اس قدر زوال پزیر کردیا ہے کہ ہم پورے گاؤں کی روٹی کرکے خوش ہوتے ہیں
اور اپنا ہی بھائی اور رشتے دار بھوک سے سسک سسک کر مر رہے ہوتے ہیں۔
یاد رکھیں! مسلسل محرومیاں انسان کو مجرم بنادیتی ہیں۔
ایک بھکاری سے نفرت کرنے والا سماج اب خود بہ خود بھیک نما بنتا جارہا ہے۔
ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہماری نسلیں تباہ ہوگئی ہیں ۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ جو سمارٹ فون آپ نے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں تھما دیا ہے
یہ کن چکروں میں پڑے ہوئے ہیں؟
دن رات یہ سوشل میڈیا کے ذریعے کیسے اپنا خانہ خراب کر رہے ہیں؟
اگر والدین بچوں کی مناسب رہنمائی نہ کریں تو وہ واٹس ایپ، ٹک ٹاک پر اپنے جسموں کی نمائش کرتے بھی نہیں شرماتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فضول رسومات کے خاتمے کےلیے ملکی سطع پر قوانین منظور کیے جائیں۔
آخری بات کہ رمضان کی آمد قریب ہے۔
ہر سال ہماری قوم کے کروڑوں مخیر حضرات رمضان پیکج دیتے ہیں۔
یہ اچھا اقدام ہے لیکن اگر رمضان پیکج کی بجائے زکوٰۃ پیکج دیے جائیں تو کئی گھر مضبوط ہوسکتے ہیں۔
یاد رکھیں زکوٰۃ کی درست ادائیگی سے نہ صرف رشتے مضبوط ہوتے ہیں، بلکہ خاندان بھی مضبوط ہوتے ہیں۔
اللہ ہمیں ان تمام برائیوں کے بارے میں سوچنے سمجھنے اور شرعی احکامات کے مطابق ان سے نمٹنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

تحریر: خالد غورغشتی

29/02/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-22-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.