حکمرانی کے گذرے ہوئے ادوار اور پاکستان

تحریر۔۔امجد علی

3

شیروانی اور وردی، بس یہی دو لباس ہیں جو ہماری سیاست کی تاریخ میں بار بار اسٹیج پر جلوہ گر ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتیں دو طرح کی پائی جاتی ہیں۔ ایک سادہ یعنی سیاسی اور دوسری آسکر ایوارڈ یافتہ، جس سے سبھی واقف احوال ہیں۔ بحرحال فرق صرف پوشاک کا رہا، اندازِ حکمرانی میں زیادہ تبدیلی کبھی دکھائی نہ دی۔ پاکستانی ایک طبقے کی عجیب سی محبت آمریت کے ساتھ جڑی رہی ہے۔
ہماری تاریخ میں آمریت کا سحر ایسا رہا کہ جب بھی کوئی “نجات دہندہ” نمودار ہوا، ڈھول بجے، شادیانے گونجے، مٹھائیاں تقسیم ہوئیں اور عوام کو یقین دلایا گیا کہ مسیحا مل گیا ہے۔ اب قسمت کے ستارے بدل جائیں گے۔ مگر نتیجہ وہی نکلا جسے میر نے کہا تھا
“ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

اقتدار کی کرسی ہمیشہ سے جانے کتنے دلوں میں دبی ہوئی خواہش موقعہ ملتے ہی یکایک کہیں سے ابھر آتی ہے۔ یہ طلب کبھی ترانوں، کچی قصیدوں کی صورت میں، کبھی تحریروں کی خوشامدی لَے میں سنائی دیتی ہے۔ نیا آنے والا جب بلند و بانگ دعووں کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہوتا ہے، تو موقع پرست طبقہ بھی فوراً متحرک ہو جاتا ہے۔ اخبارات میں لمبے کالم لکھے جاتے ہیں، ٹی وی اسکرینوں پر نئے تجزیاتی ٹاک شو کیے جاتے ہیں، اور یوں ماضی کے حکمرانوں کی نا اہلیوں، تباہ کاریوں کو گنوا کر، نئے آنے والے کے عرشی فرشی قلابے مالائے جاتے ہیں۔ وہ کتنا بھی ناپسندیدہ ہو، کرسی پر بیٹھتے ہی سارے افلاقی اوصاف اس میں آمڈ اتے ہیں۔ یہ واقعہ سینکٹروں بار وقوع پذیر ہوچکا۔ مطلب چاپلوسی، قصیدہ گوئی کی بھی الگ تاریخ ہے۔ کئی شخصیات متعدد کمپنیاں کتنے ہی خوشنما دعوؤں کے ساتھ مارکیٹ میں اتریں مگر کسی نے پاکستان کے لیے محبت کو حلق سے نیچے نہیں آنے دیا۔ اس نے عشق کو خود اپنی ذات سے، فیملی اور پراکسیز کے دائرے میں کورنٹائن کر رکھا تھا کہ اس وبا سے ملک و قوم کو مکمل محفوظ رکھنے کا متمنی تھا

ایوب خان کے دور کو دیکھ لیجیے، ترقی اور استحکام کا نعرہ لگا، صنعت کاری کا چرچا ہوا، مگر ساتھ ہی جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا۔ ضیاء الحق نے “نظامِ مصطفیٰ” کا جھنڈا اٹھایا اور مذہب کے نام پر اپنی حکمرانی مضبوط کی، لیکن سماج کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا۔ پرویز مشرف نے “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگایا، بہت بڑے لبرل بن کر امریکہ کی خوشنودی کے لیے ہر جائز ناجائز ایکشن لیے گئے، جن میں تاریخ میں ناقابل فرموش اکبر بگٹی اور جامعہ حفصہ آپریشن بھی کیے۔ معیشت کا نقشہ کھینچا، مگر انجام وہی پرانا نکلا۔ ان ادوار میں عوام کو جینا بھی ایسے پڑتا ہے، جیسے سینما میں کوئی بلکل خاموش بیٹھا فلم دیکھ دیکھ رہا ہو، وہ نہ کچھ کر سکتا ہے نہ بول سکتا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام بھی اکثر ایسے ہی کسی نجات دہندہ کی تلاش میں رہتے ہیں جو ایک جھٹکے میں حالات بدل دے۔ جن کے پاس کن فیکون کی طاقت ہو۔ کبھی یہ خواب فوجی وردی میں دیکھا گیا اور کبھی شیروانی میں لپٹی جمہوریت نے آمریت کا رنگ اختیار کیا۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں آمریت کبھی وردی پہن کر آتی ہے اور کبھی شیروانی اوڑھ لیتی ہے لباس بدل جاتا ہے، مگر حکمرانی کا چلن زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ کیونکہ مطلق العنان بننے کی بیماری اور ان کرسیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے لہذا کسی ایک کی تعریف تک رک جانا قرین انصاف نہ ہو گا۔

پاکستان کے سویلین رہنما بھی، اقتدار میں آتے ہی، اکثر اسی آمرانہ روش پر ہی چلے۔ جمہوریت کے نعروں کے پیچھے ذاتی پسند و ناپسند کو قومی مفاد کا لبادہ اوڑھا دیا گیا۔ ادارے کمزور کیے گئے، اختلاف رائے کو کچلا گیا، اور ریاست کو ایک فرد یا خاندان کی مرضی کے تابع کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا بینظیر بھٹو، نواز شریف ہوں یا عمران خان سبھی نے کسی نہ کسی شکل میں اپنی طاقت کو مطلق العنان بنایا۔

بھٹو نے عوامی مقبولیت کو جواز بنا کر بلوچستان میں سختی سے اختلاف دبایا، اداروں کو پس منظر میں دھکیل دیا اور اپنے فیصلوں کو قومی پالیسی کا درجہ دے دیا۔ بینظیر بھٹو نے جمہوریت کی واپسی کا خواب تو دیا مگر اس خواب کو خاندانی سیاست اور سرپرستی کے جال میں الجھا دیا۔ نواز شریف نے بادشاہت کے انداز اپنائے، آئینی ترامیم کے ذریعے خود کو بالاتر بنانے کی کوشش کی اور پارلیمنٹ کو بے وقعت کر ڈالا۔ عمران خان نے احتساب کے نعرے کو ہتھیار بنایا، اداروں کو ذاتی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا اور اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا۔

یہی نہیں، حالیہ برسوں میں پی ڈی ایم کی حکومتوں نے بھی اس روایت کو آگے بڑھایا۔ 2022 میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی وہی پرانی کہانی دہرائی۔ چند قومی مفاد کے زیر اثر اقدامات کے سواء معیشت سنبھالنے کے بجائے انتقامی سیاست پر زور رہا، ادارے مزید تقسیم ہوئے، اور عوام کے مسائل جوں کے توں رہے۔ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے مگر کرپشن اور سیاسی سودے بازی بدستور جاری رہی۔ پی ڈی ایم کے بعد آنے والی نگران اور پھر حالیہ حکومت نے بھی عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا، مہنگائی کو آسمان پر پہنچایا اور ملک کو صرف انتخابی نتائج کے کھیل میں لگی سچ جھوٹ کی گرہوں میں الجھا دیا۔ یوں جمہوری ادوار میں بھی عوام کے حصے میں مایوسی، غربت اور بے بسی ہی آئی۔ عوام کو مہنگائی اور خواری کے علاؤہ کچھ ہاتھ نہ ایا۔

سچ تو یہ ہے کہ ہماری سیاست ایک ایسے گہرے اندھے گڑھے میں بدل چکی ہے جہاں جھوٹ کے سوا کچھ باقی نہیں۔ یہاں ملک و قوم کسی کو نظر نہیں اتے۔ حکمرانوں کے اثاثے اور بینک بیلنس ہر دور میں بڑھتے رہے، مگر قوم کے ہاتھ خالی ہی رہے۔ سب نے اپنے دبئی اور لندن کے محلات کے خواب سجائے، مگر پاکستان کے مستقبل پر کسی نے غور نہ کیا۔ معیشت زبوں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.