بقول شاعر
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر
کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے
پاکستان میں رائج سیاست اتنی سفاک ہے کہ اشرافیہ اور اقتداری طبقات ملک و ملت کے
مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملک و قوم کے وسائل اور خزانے کو بیدردی سے لوٹ کر مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔
عوام کو پانچ بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے
روٹی ’کپڑا‘ مکان ’تعلیم اور صحت۔ لیکن بد قسمتی سے آمرانہ رویوں کی گود میں پرورش پانے والا
یہ سیاسی نظام اس حد تک منہ زور ہو چکا ہے کہ ریاست اور اداروں کو ڈکٹیٹ کرتا نظر آتا ہے۔
بنیادی حقوق اور عدل و انصاف سے عاری معاشرہ کیسے دنیا کے دیگر معاشروں کے لئے بہتر لیبارٹری ثابت ہو سکتا ہے۔سیاست کا خلاصہ صرف اتنا سا ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کے
گندے اور پرانے موزے آپس میں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور یہ عوام بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسی جا رہی ہے۔
ملک میں یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں عوام کے بنیادی حقوق اور ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
دنیا کے تھنک ٹینک ایسے نظام کو جمہوری نہیں گردانتے ان کے مطابق جمہوریت جمہور
کی آئینہ دار حکومت ہوتی ہے۔ ملک میں گٹھ جوڑ کی سیاست نے اس ملک و ملت کو یرغمال بنا رکھا ہے
میثاق جمہوریت کے نام پر عوام کو ایک نئے فریبی انداز سے دھوکہ دیا جا رہا ہے
ملکی سیاست اقتدار کے حصول اور مفادات کے تحفظ کا ایک ایسا کٹھ پتلی تماشا ہے جس میں عوام کے لئے کچھ نہیں ہے۔
جس ملک کی ایک چوتھائی یا غالباً اس سے بھی کچھ زیادہ آبادی کے پاس رہنے کو گھر
پہننے کو کپڑا اور کھانے کو روٹی نہ ہو، کیا اس ملک کے چند افراد کو تمام عیاشیوں کا حق دیا جا سکتا ہے؟
اس سلسلے میں نہ کسی بحث کی گنجائش ہے اور نہ کسی سیاسی نظریے یا سماجی فلسفے کا حوالہ
دینے کی ضرورت ہے۔ یہ تو ایک بالکل صاف اور سادہ سی بات ہے۔اس ملک کو آزاد کرانے میں
قوم کے ہر طبقے نے حصہ لیا۔ پاکستان پوری قوم کی قربانیوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اسے بھی چھوڑیے، اس بات کا جواب دیجیے کہ وہ کون سی منطق اور کون سا نظام اخلاق ہے
جس کے پیش نظر چند بے ضمیر، موقع پرست افراد نے پوری قوم کو لوٹنے اور کھسوٹنے کا حق پا لیا ہے۔
بد انتظامی اور انصاف نہ ملنے کے سبب عوام اپنی زندگیوں کا چراغ گل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں
مگر ہماری حکمراں اشرافیہ کی بے حسی پر کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا۔سارے نظام پر نگاہ ڈالی جائے تو انسان، عام شہری اور جمہور اس نظام میں کہیں بھی نظر نہیں آتے۔
یوں لگتا ہے کہ جیسے اس جمہوریت کے فریم سے جمہور غائب ہے اور باقی ریت ہی ریت ہے،
حکومت کی کسی پالیسی، منصوبہ بندی اور مستقبل بینی میں بنیادی اکائی
یعنی انسان عام شہری اولین ترجیح نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت
جمہور کے بغیر مضبوط ہو سکتی ہے؟
کیا کوئی سیاسی نظام عام شہری کو زندگی مہیا کیے بغیر پھل پھول سکتا ہے؟
پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کی داستانیں کہاں کہاں دراز نہیں۔رہی بات عوام کی تو عوام سادہ دل ہیں
یہ نعرے لگاتے ہیں، کبھی کسی کے لیے تو کبھی کسی کے لیے، یہ اپنے اپنے لیڈروں کے نام پر لڑتے بھی ہیں
اپنے گھر کے آنگنوں میں لاشیں بھی لاتے ہیں، الیکشن سے پہلے بھی جھگڑتے ہیں
الیکشن کے روز بھی اور الیکشن کے بعد بھی۔ووٹ لینے والے نت نئے خواب دکھا کر انھیں بے وقوف بناتے ہیں
جواباً انھیں صرف سراب نصیب ہوتا ہے اور عوام کے لیڈر اس دھرتی پر رہتے ہیں، اس کا رزق کھاتے ہیں
اس کی پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہیں، مختلف عہدوں پر فائز رہتے ہیں
یہاں سے لوٹ مار کر کے مال باہر منتقل کرتے ہیں اور پھر غداروں والے سارے کام کر کے
خود کو پاکستانی عوام کا لیڈر کہتے ہیں۔قائد اعظم کے پاکستان پر حکمرانی کرنے والو
کبھی اپنے اندر اس عظیم رہنما جیسے کوئی دو چار اصول ہی پیدا کر لو کہ جس کے بارے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کہنا پڑا کہ
ہندوستان کے تمام سیاسی رہنما مجھے ملنے آتے ہیں، ایک قائد اعظم ہیں جنھیں ملنے کے لیے مجھے خود جانا پڑتا ہے
جب میں انھیں ملنے جاتا ہوں تو مجھے وہ دروازے پر خوش آمدید نہیں کہتے
مجھے ڈرائنگ روم میں پانچ سے پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے، پھر جب وہ آتے ہیں میں ان سے ہاتھ ملاتا ہوں
تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا ہاتھ شیر کے جبڑے میں ہو۔ افسوس صد افسوس کہ
قائد اعظم کے ملک پر حکمرانی کرنے والے کھوٹے سکے ہر وقت کرپشن کے گیت گاتے ہیں
عجیب لوگ ہیں جن کے لیے عوام کہہ رہے ہیں کہ کیسے کیسے بھیڑیے ملک کو کس طرح بھنبھوڑ رہے ہیں
کمال تو یہ ہے کہ ہر چور، ڈاکو، ٹھگ، لٹیرا اور نقب زن خود کو سادھو ثابت کرنے پر تلا ہے
اور کچھ نے چپ سادھ رکھی ہے، جیسے سنا ہی نہ ہو۔ ملک میں کچھ نہ کیا جائے
بس لوٹ مار سے بچا لیا جائے تو عوام خوشحال نہ بھی ہو تو خط غربت پر بڑھتی ہوئی آبادی ختم ہو سکتی ہے۔
عوام کی اکثریت خط غربت سے نیچے جی رہے ہیں، کروڑ وں جھونپڑیوں تک بجلی پہنچی ہی نہیں
اور یہاں طبلے کی تال، ہارمونیم کے سر اور پازیب کی جھنکار میں عیش و عشرت کی زندگیاں گزاری جا رہی ہیں،
سچ ایمانداری، قانون کی پاسداری، انصاف اور احترام، انسانیت دنیا بھر میں اخلاقیات کے معیار ٹھہرے ہیں
ہم کج ادا ان سے تہی بھی ہیں اور دنیا کو یہی اسباق پڑھانے پر مصر بھی۔
جمہوری ممالک میں گڈ گورننس‘اداروں میں اکاؤنٹبیلٹی اور شفافیت ہوتی ہے۔
کرپشن کے خاتمے کے لئے سیاسی‘انتخابی اور قانونی اقدامات کئے جاتے ہیں۔
کرپٹ لوگوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاتا ہے‘ہر طبقہ کو برابر نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے۔
قانون سازی کے ذریعے اداروں کو مضبوط کر کے خود احتسابی کا خود کار نظام وضع کیا جاتا ہے۔
عدم مساوات ختم کر کے غربت ختم کی جاتی ہے‘معاشرے میں بسنے والے افراد کو
روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم اور صحت جیسی سہولیات سے آراستہ کے آئینی بنیادی حقوق بہم پہنچائے جاتے ہیں۔
ہم تو یہ بتانا چاہتے ہیں اگر عوام کو ڈلیور کیا جاتا تو آج آپ کو رونا دھونا نہ پڑتا۔
یاد رکھیں ابھی تو ہم تبدیلی کے در پر دستک دے رہے ہیں اگر یہ در کھل گیا تو
نئی نسل نظریہ ضرورت کی گرہ سے بندھے اقتداری طبقات کو ان کی کرتوتوں
سمیت ہمیشہ کے لئے عبرت کی تاریخ میں دفن کر دے گی کیوں کہ وقت بے رحم استاد ہے۔
رابطہ نمبر:03066470055
لوگو:زیر و زبر
تحریر:راؤ غلام مصطفی
28/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-7-scaled.webp