پانی زندگی ہے

58


پانی زندگی کی علامت ہے۔ کرہ ارض پر پانی جیسی نعمت کی موجودگی ہی تمام جانداروں کی بقاء کیلئے ضروری ہے۔ پانی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس سے زندگی ہی نہیں بلکہ صنعت، زراعت اور معیشت سمیت دیگر تمام شعبہ جات کا پہیہ رواں دواں ہے۔
حالیہ برسوں میں ہونے والی تیز رفتار سائنسی ترقی ، بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور دیہات میں سیوریج کے نظام کی کمزوریوں نے پینے کے صاف پانی تک انسانوں کی رسائی کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ جس سے صحت سمیت دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں۔ 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے
جس کی مناسبت سے دنیا بھر کی حکومتیں، سرکاری و غیر سرکاری ادارے اور تنظیمیں مختلف پروگرامز منعقد کرواتی ہیں جن کا مقصد پانی کے مسائل کو اجاگر کرنا ، ان کا حل تلاش کرنا اور لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔
پاکستان میں یہ دن خصوصی طور پر منایا جاتا ہے تاکہ پانی کے مسائل پر بات کی جائے، وفاقی و صوبائی سطح پر کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے اور سول سوسائٹی کے اداروں کی آراء کو بھی دیکھا جائے۔
اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہم پر پانی کی اہمیت واضح کر دی تاکہ ہمیں اس نعمت کی حفاظت کریں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ “وہی ہے جس نے تمہا رے لیے آسمان کی جا نب سے پا نی اتارا جسے تم پیتے ہو اور اس میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نبا تات، سبزی اور چرا گاہیں اُگتی ہیں) جن سے تم اپنے مویشی چراتے ہو۔” صاف پانی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
یہ واسا کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو آلودگی سے پاک پانی فراہم کرے۔ کچھ برس پہلے ملک کے مختلف بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر کارپوریشن اور واسا نے شہریوں کو بلا قیمت پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے کئی ایک فلٹر پلانٹ لگائے تھے جس سے شہری بڑے خوش تھے کہ انہیں بلا قیمت صاف پانی مل رہا ہے۔
مگرمناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ان میں سے بیشتر ناکارہ ہو چکے ہیں یا بوتلوں میں پینے کا پانی فراہم کرنے والوں نے بند کرا دیئے ہیں۔اب ان کے ارد گردکوڑا کرکٹ اور بدبو کے ڈھیر دیکھے جا سکتے ہیں۔
زیر زمین پانی کے بےدریغ استعمال سے ہم اپنی آنے والی تین نسلوں کا پانی گٹروں میں بہا چکے ہیں عالمی اداروں کے سروے کے مطابق 2025 میں پاکستان قحط زدہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا ۔
ہمارے دریاؤں نہروں جھیلوں کا صاف میٹھا اور چاندی جیسے پانی کو سیوریج میں ڈال کر اور کچرا پھینک کر آلودہ کر دیا گیا ہے۔
قابل استعمال صاف اور میٹھے پانی کو گندا کرنے والے لوگوں اور صنعتی زون کے قریب زہریلے اور کیمیکل ملے پانی کو بھی صاف شفاف نہری اور دریائی پانی میں ڈالنے پر سخصت سزاوں کا قانون ہونا چاہیے ۔
پاکستان کے اندر دنیا کے بہترین نہری نظام کو کچرا اور گندگی ڈال کر اور اس کے ساتھ ملحقہ آبادیوں کا سیوریج کا کیمیکل والا پانی ڈال کر گندا کر دیا گیا ہے ۔
اس آلودہ پانی سے نہ صرف آبی حیات کو نقصان ہوا ہے بلکہ زرعی پیداوار بھی شدید متاثر ہوئی ہے ۔ شہروں کے ساتھ نہریں اور راجباہ گند سے بھرے پڑے ہیں افسوس کا مقام یہ کہ جن اداروں نے انکو صاف رکھنا تھا وہ بھی دن ہوتے ہی کوڑا کرکٹ صبح اس میں ڈال رہے ہوتے ہیں ۔
اس زہر آلود پانی سے بیماریوں کی بہتات ہے ۔ ایک طرف پیٹ اور جگر کے امراض میں بےتحاشا اضافہ ہے۔ تو دوسری جانب جانور اس پانی کو پی کر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ شہروں کے اردگرد نہروں میں گندگی کے ڈھیر ہونے سے وہاں بدبو کا ایک طوفان اور مچھروں کی بہتات ہے ۔ جس کی وجہ سے ملیریا اور ڈینگی بخار سے جانوں کا بھی ضیاع بھی ہو رہا ہے ۔ اس پانی میں نوجواں اور بچے جو نہاتے تھے انکی تفریح بھی ختم ہو چکی ہے ۔ سپریم کورٹ کے واٹر کمیشن کو ہوا میں اڑا دیا گیا ۔
اگر اس واٹر کمیشن پر عملدرآمد کیا ہوتا تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی ۔
عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف ہو ا کہ پاکستان میں پینے کے پانی میں خطرناک اور زہریلے مادے آرسینک کی بہت زیادہ مقدار موجود ہے جس سے شہریوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔سنکھیا یا آرسینک قدرتی طور پر پائی جانے والی معدنیات میں شامل ہےجو بے ذائقہ ہوتا ہے اور گرم پانی میں حل ہو جاتا ہے اور جس کے مسلسل استعمال سے انسان کو سنگین بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔
صحت کے عالمی اداروں کی جانب سے اتنے واضح الرٹ کے بعد بھی وفاقی وصوبائی سطح پر کوئی ہلچل دیکھنے میں نہیں آئی۔افسوس ہے کہ پنجاب میں 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں جبکہ 85 فیصد استعمال شدہ پانی جو ’ری سائیکل ‘کیا جاسکتا ہے وہ سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پانی کو محفوظ کرنے کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں تھی۔
پنجاب میں واٹر پالیسی بن چکی ہے مگر اس میں پینے کا صاف پانی شامل نہیں ہے، اس پر بھی کام کرنا ہوگا۔ بیرون ممالک مقیم لوگ وہاں نل سے پانی پیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ پانی آلودہ ہے۔ میرے نزدیک فلٹریشن پلانٹس و دیگر منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے ہمیں پانی کے پائپ کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ ہر شخص کو گھر پر ہی صاف پانی مہیا کیا جاسکے۔
گزشتہ کئی برسوں سے واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے جا رہے ہیں جن میں سے بے شمار ناکارہ ہوچکے ہیں، ان کی مرمت اور دیکھ بھال کا نظام نہیں بنایا جاسکا، وہاں فلٹر تبدیل نہیں ہوئے جس کی وجہ سے وہ پانی زیادہ خطرناک ہوگیا ہے، اس طرف ہماری حکومت توجہ دے رہی ہے لہٰذا بہتر نظام بنایا جائے گا۔
واساکو چاہیئے کہ ناکارہ فلٹر پلانٹش کو جلد سے جلدبحال کرے اور ان کی مناسب دیکھ بھال کے لئے مستقل بنیادوں پر انتظام کرے۔ بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں میں بھی واساکو مصفا پانی کے فلٹر لگانے چاہئیں اور اس میں رخنہ ڈالنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیئے۔
صاف پانی کے ہر قطرے میں زندگی پوشیدہ ہے اس لیے اس کی حفاظت ہمارا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے ۔معاشرتی سطح پر پانی کے استعمال میں کفایت اور صاف پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبو ں پر فوری توجہ نہ کی گئی تو پوری نوعِ انسانی کو مستقبل میں بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فیصد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فیصد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔
یہی پانی ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا جو انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صاف شفاف ،صحت مند اور منرلز سے بھرپور پانی فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
سمندری پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جائیں اورگھروں میں سپلائی ہونے والے پانی کے پائپس کو صاف رکھنے کا مستقبل نظام بنایا جائے۔ جوڈیشل واٹر کمیشن ،زیر زمین پانی کو محفوظ بنانا، ذخائر میں اضافہ کرنا، پانی کو ری سائیکل کرنا و دیگر اہم اقدام واٹر پالیسی کا حصہ ہیں جن پر کام ہو رہا ہے ۔
میرے نزدیک حکومت اکیلے تمام مسائل حل نہیں کرسکتی، اس کے لیے ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی طرف جانا ہوگا، اس سے مسائل کے حل میں تیزی آئے گی۔
چھوٹے پیمانے پر آلودہ پانی کی صفائی کے طریقوں سے آگاہی دینے کے ساتھ شہریوں کو اس سے متعلق سستے آلات اور مشینیں بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔
صاف پنی کو صرف پینے کے لیے استعمال کیا جائے جب کہ سمندر،دریا اور نہروغیرہ کے پانی کو کاریں دھونے،سڑکیں دھونے اور واش روم کے لیے استعمال کیے جانے کے انتظامات کئے جائیں۔ اس سلسلے میں اسکول ،کالجز ،جامعات اور مدارس کے علاوہ معاشی سطح پر دینی و سائنسی طرز پر شعورو آگہی کے پروگرام کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
اس ضمن میں این جی اوز مختلف علاقوں میں اپنے فنڈز سے واٹر پلانٹ نصب کرنے کے علاوہ حکومت کے اشتراک سے مختلف طریقوں سے پانی کی صفائی اور کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے پروجیکٹس بھی شروع کرسکتی ہیں۔

تحریر : ڈاکٹر عبدالرحمٰن ناصر

22/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-1-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.