نسواں کی عصمت کیوں غیر محفوظ؟

80

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی گزشتہ دنوں خواتین کا عالمی دن پوری آب وتاب سے منایا جائے گا۔
اس دن نسواں کے حقوق کے بارے میں مختلف تقریبات اور سیمنار جوش و خروش سے سرکاری و نیم سرکاری سطح پر منعقد کیے جائیں گے۔
آپ یقین کریں پچھلے ستر سالوں سے جو ناروا سلوک
ہمارے خطے میں خواتین کے ساتھ برتا گیا، اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارا ملک بنا ہی مسائل کے لیے ہو۔ سیاست، مذہب، لسانیات اور رسومات کے نام پر ہم نے جو گل کھلائے ہیں۔
اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم نے مذہب کی تبلیغ فرقوں کی نذر کر دی۔ سیاست عوام کےلیے کرنے کی بجائے اپنی جماعت کی سربلندی کےلیے شروع کردی۔
لسانیات کے باب میں اپنے علاقوں اور قومی زبان کے فروغ کی بجائے ہم نے غیروں کی زبان کو فروغ دیا۔ جس کے نتیجے میں بچے سولہ سولہ سال پڑھ کر بھی تعلیم و تربیت سے عاری رہے۔
والدین ساری عمر پریشان رہے کہ بچوں کو سرکاری نہیں تو کم سے کم پرائیویٹ ہی نوکری مل جائے۔
مگر افسوس انھیں دور دور تک نوکریوں کے آثار نہ ملے۔
کاش ہم تعلیم کے ساتھ کوئی ہنر، کوئی کاروبار بچوں کو سیکھتے تو آج وہ اتنے دشوار کن مراحل سے نہ گزرتے۔
کاروبار کوئی بھی ہو چھوٹا یا بڑا فرق نہیں پڑتا۔
کسی بھی ملک کی ترقی میں افراد کا خوش حال ہونا لازم و ملزوم ہوتا ہے۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو سبزی و پھلوں کی فروخت، چھولے، چائے، برگر، پیزہ اور موبائل وغیرہ کے کاروبار کرنے کی طرف مائل کیا جائے تو کئی بڑے بڑے بے روزگاری کے مسائل حل ہوسکتے تھے۔
اگر بالفرض تعلیم کے بعد بھی نوجوانوں کو کوئی بڑا روزگار نہیں ملتا تو یہی کاروبار کرنے میں کیا مضائقہ تھا۔ پاکستان زرعی ملک ہے، اس شعبے میں خوب آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہیں۔
ہمت کیجیے، اور نت نئی نئی سبزباں اور پھل اگا کر خوش حال و سر سبز پاکستان کا آغاز کیجیے۔

بات ہورہی تھی عورتوں کے حقوق کی تو اس بات سے قطعاً انکار ممکن نہیں ہے کہ ہمارے خطے میں پچھلی کئی دہائیوں سے خواتین کی عصمتیں دو وقت کی روٹی کے حصول کی خاطر لوٹیں گئی ہیں۔
جب درندوں کے سامنے جگہ جگہ کھلا ہوا گوشت ہوتو شکار نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اسے کھایا جاتا ہے۔
اس وقت لاکھوں نہیں کروڑوں خواتین کی حالت مہنگائی، غربت اور مفلسی کے ہاتھوں ایسی ہوچکی ہے
کہ وہ اپنا گوشت بیچنے کے درپے ہیں۔

جب ریاست اپنے شہریوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کرے تو یہی حالات ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی بےحیائی سے ہم تنگ ہیں تو چند سکوں کی خاطر جسم بیچنے والی قوم کی ہونہار بیٹیوں کے سب کے سامنے بدن پیش کرتے وقت کہاں مر جاتے ہیں؟
اس وقت مردوں کی بے روزگاری سے زیادہ عورتوں کی بےروزگاری کے خاتمے کی حاجت ہے۔
ہمارا نئی بننے حکومت سے بھرپور مطالبہ ہے کہ وہ خواتین کےلیے گھریلوں صنعتوں کے ساتھ ساتھ جلد ان کے کفالت پروگرام کا آغاز کرے۔ تاکہ وہ با آسانی اپنے گھر چلا سکیں۔

حالات انتہائی ناگفتہ بہہ ہیں، ہماری جوان بچیاں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی جاہل و گوار اور منشیات فروش کے حوالے کردی جاتی ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو بھی ایسے روزگار مہیا کیے جائیں کہ
وہ کم ازکم خود مختار ہو کر اپنے گھروں میں رہ کر کام کرسکیں۔
وہ والدین پر بوجھ نہ ہوں، والدین ان کو کسی بھی لوفر یا لفننگے کے ساتھ باندھنے سے پہلے ہزار بار سوچ سکیں۔
رشتہ دینا ان کی مجبوری نہ ہو بلکہ خوشی ہو۔ میں یہ مضمون ختم ہی کرنے والا تھا کہ
ایک قومی اخبار میں پڑھا کہ کل پنڈی تھانہ پیرودھائی کی حدود میں
نو مولود بچے کی لاش کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے ملی ہے۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے،
اس میں قصور وار عورت ہے مرد ہے یا معاشرہ یہ سوال آپ خود سے کرلیں؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندہ روح کو ہلاک کرکے کچرے کے ڈھیروں پہ پھینکے کا
یہ لامتناہی سلسلہ کب تتھمے گا؟ کب تک ہماری مائیں، بہنیں اور
بیٹیاں راہ چلتے درندوں کی جنسی ہراسگی کا شکار ہوتی رہیں گی۔
جس معاشرے میں عورت کی عزت گھر میں بھی محفوظ نہیں،
اس معاشرے میں کوئی بھی شے محفوظ نہیں ہوتی ہے۔
عورت کی عزت پورے معاشرے کی عزت ہے اور پورے معاشرے کی عزت پورے ملک کی عزت ہے۔
آج ہم نے فیصلہ کرنا ہے
ہماری مائیں بہنیں، بیٹیاں کب تک دو وقت کی روٹی کی خاطر درندوں کی جنسی ہوس کا شکار بنتی رہیں گی، آخر کب تک؟

تحریر:خالد غورغشتی

11/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-7-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.