پاکستان کے حکمران چوہدری محمد اسماعیل کے مقروض ہیں

تحریر محمد رمضان چھیپا چیرمین چھیپا فاؤنڈیشن انٹرنیشنل

1

کتاب ’’مال گاڑی میں امانتیں‘‘ جب میں نے پڑھنا شروع کی تو کئی دن اور راتیں بے خبری میں گزر گئیں۔ وقت کی کمی اور چھیپا ویلفیئر کے رفاعی کاموں کے باوجود میں نے اس کتاب کو نہایت انہماک اور دلجمعی سے پڑھا۔ یہ کتاب محض ایک ذاتی داستان نہیں بلکہ تحریکِ آزادی ہند اور قیامِ پاکستان 14 اگست 1947ء سے جڑی ہوئی ایک ایسی حقیقی تصویر ہے، جس نے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا۔ محترم محمد حنیف بندھانی، سینئر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ سندھ کراچی نے اپنی کم عمری کے مشاہدات کو سادہ مگر نہایت مؤثر اور درد انگیز انداز میں قلمبند کیا ہے۔ ان کی تحریر میں وہ سچائی ہے جو دل کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔ یہ وہ لمحات ہیں جنہیں تاریخ میں سنہری نہیں بلکہ خونی حروف سے لکھا جانا چاہیے۔
14 اگست 1947ء کا دن بظاہر خوشی کا دن تھا، لیکن اس کے پس منظر میں قربانیوں، جدائیوں، اور المیوں کی ایک پوری کائنات چھپی ہوئی ہے۔ یہی وہ دن تھا جب ہندوستان سے لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ یہ ہجرت محض ایک نقل مکانی نہ تھی بلکہ یہ جانی و مالی قربانیوں، دکھوں اور جدائیوں کی داستان تھی۔ لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں کا دن تھا جنہوں نے ایک آزاد وطن کی خاطر اپنے گھربار، عزیزوں، اور جانوں کو قربان کر دیا۔
اسی دن ایک تاریخی معاہدہ بھی وجود میں آیا، جس کا ذکر کتاب میں نہایت اہمیت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چودھری محمد اسماعیل کو حکومت پاکستان کی طرف سے ایک سرکاری معاہدہ 14 اگست 1947ء کو تفویض کیا گیا، جس کے مطابق دہلی ریلوے اسٹیشن سےکراچی ریلوے اسٹیشن تک تمام سرکاری افسران کا سامان بخیر و عافیت پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ معاہدہ خود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خانؒ کے حکم پر جاری ہوا۔ اس اہم ذمہ داری کو چودھری محمد اسماعیل نے نہایت دیانت داری، محنت اور قربانی کے ساتھ نبھایا۔
کتاب ’’مال گاڑی میں امانتیں‘‘ صرف سرکاری سامان کی ترسیل کی کہانی نہیں بلکہ ایک دل دہلا دینے والی حقیقت ہے، جس میں ہجرت کے مناظر کو بڑی دردمندی سے بیان کیا گیا ہے۔ قتل و غارت، لوٹ مار، معصوم بچیوں کا اغوا، گھروں کو نذر آتش کرنا اور چلتی ٹرینوں پر حملے جیسے المناک واقعات کا تذکرہ قاری کو اس زمانے میں لے جاتا ہے جہاں ہر سمت قیامت برپا تھی۔ چودھری محمد اسماعیل کی قربانیوں کا تذکرہ بھی خاصا چشم کشا ہے۔ دہلی میں ان کا سماجی، مالی اور معاشرتی مقام بہت بلند تھا۔ وہ سٹیزن بینک آف انڈیا دہلی میں ہزاروں روپے بطور سیکیورٹی ڈپازٹ جمع کروا چکے تھے۔ ان کے تعلقات اعلیٰ حکومتی شخصیات ۔وائسرائے ہند، پاکستانی افسران میں اسسٹیٹ سیکریٹری ڈیفنس اسکندر مرزا ، چوھدری محمد علی اور اسٹیٹ سیکرٹری فنانس قابل ذکر ہیں۔۔ جناب اسکندر مرزا نے دھلی میں مبلغ پانچ ہزار روپے قرض لیا تھا کہ پاکستان جا کر ادا کروں گا جو صدر مملکت بننے کے بعد ایوان صدر کراچی میں ادا کیے۔
چودھری محمد اسماعیل نے 1947ء کے اس ابتلاء کے زمانے میں ہزاروں مزدوروں اور بیل گاڑیوں کے ذریعے سرکاری سامان کی ترسیل ممکن بنائی اور ان سب مزدوروں کی اجرت بھی خود ادا کی۔ یہ سب کچھ انہوں نے ایک قومی فریضے کے طور پر انجام دیا۔ بدقسمتی سے انہیں اپنی اس دیانت داری اور خدمت کا صلہ اپنی بوڑھی والدہ کے جامِ شہادت کی صورت میں ملا۔ ان کا گھر بلوائیوں نے جلا ڈالا، بیوی بچوں سے پناہ گاہ میں آخری ملاقات ہوئی، اور سرکار کی طرف سے دیا گیا 20 ہزار روپے ایڈوانس بھی لوٹ لیے گئے۔
یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ چودھری محمد اسماعیل اور ان کے خاندان نے اس پورے عمل میں جو بے مثال قربانیاں دیں، ان کے بدلے میں ایک روپے کا فائدہ تک نہیں اٹھایا۔ امانتوں کو انہوں نے آگ اور خون کے دریا عبور کر کے کراچی پہنچایا ۔آج جب ان کے بیٹے تمام اصل قومی دستاویزات حکومت پاکستان کے متعلقہ محکمے کے سپرد کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ قومی ورثہ اور قومی امانت محفوظ ہو تو انہیں کوئی سرکاری تعاون نہیں مل رہا۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جن لوگوں نے قوم کے لیے سب کچھ قربان کر دیا آج ان کی اولاد کو بھی انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔
چودھری محمد اسماعیل کی حب الوطنی کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ جب انہوں نے سقوط ڈھاکہ کی دل سوز خبر سنی تو اسی لمحے وہ صدمے سے بے ہوش ہو گئے ۔ یہ کیفیت کسی عام شخص کی نہیں ہو سکتی یہ ایک سچے پاکستانی، محب وطن، اور قربانی دینے والے دل کا حال ہے جو پاکستان کو ٹوٹتا دیکھ کر خود ٹوٹ گیا۔
آخر میں میں حکومتِ پاکستان سے پُرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ چودھری محمد اسماعیل مرحوم کی تحریکِ پاکستان اور تکمیلِ پاکستان میں جو عظیم خدمات ہیں، انہیں تسلیم کیا جائے اور انہیں بعد از وفات اعلی صدارتی ایوارڈ سے نوازا جائے۔ یہ ایوارڈ صرف ایک فرد کو نہیں، بلکہ ان تمام گمنام ہیروز کو خراجِ عقیدت ہو گا جنہوں نے پاکستان کے قیام کے لیے اپنی جان، مال، عزت اور سکون سب کچھ قربان کر دیا مگر کبھی اس پر فخر یا فائدہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر نہ کی۔ چودھری محمد اسماعیل کا نام پاکستان کی تاریخ میں عزت و وقار سے لکھا جانا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو قربانی اور خدمت کا اصل مفہوم سمجھایا جا سکے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.