ایران کا سرپرائز’ اسرائیل میں خوف و ہراس

آج کا اداریہ

4

ایران ‘ اسرائیل میزائل حملے تیسرے روز میں داخل ہوگئے ہیں گزشتہ شب ایران نے اسرائیل پر نیا حملہ کردیا جس کے بعد کئی اسرائیلی شہر سائرن کی آوازوں سے گونج اٹھے، حیفہ شہر میں کیے گئے حملوں کے نتیجے میں 4 اسرائیلی ہلاک اور 13 زخمی ہوگئے۔

ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے ’ارنا نیوز‘ کے مطابق ایران نے اسرائیل کے خلاف دوبارہ سے حملوں کا آغاز کردیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایران نے اسرائیل پر 100 میزائل داغ دیے، جب کہ ہائیپر سانک اور بیلسٹک میزائلوں کے ٹکرانے پر اسرائیلی شہر حیفہ میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔
ایران کے تازہ حملے کے بعد اسرائیلی کے متعدد شہروں میں سائرن بجادیے گئے جب کہ صہیونی فوج نے شہریوں کو ہدایت دی ہیں کہ وہ محفوظ ٹھکانوں سے باہر نہ نکلیں۔
اسرائیل کے چینل 13 نے ابتدائی رپورٹس میں بتایا ہے کہ ایرانی میزائلوں نے شمالی ساحلی شہر حیفہ اور پڑوسی قصبے تامر کو نشانہ بنایا ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایک ایرانی بیلسٹک میزائل حیفہ کے مشرق میں شمالی شہر تامرا میں ایک 2 منزلہ عمارت سے ٹکرایا، جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر صرف ایک شہری کی ہلاکت کی خبر آئی تھی جو بعد ازاں 4 تک پہنچ گئی اور ان حملوں میں 13 زخمی بھی ہوئے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی ایک رپورٹ میں سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شمالی اسرائیل کے آسمان میں ایرانی کروز میزائل دکھائی دے رہے ہیں۔
ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) نے کہا ہے کہ اس کی ایرو اسپیس فورس نے اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز کا ایک بڑا حملہ کیا ہے، جو فوجی آپریشن ’وعدہ صادق تھری‘ کا حصہ ہے۔
پاسداران انقلاب کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ یہ حملے اسرائیلی حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں، جس میں ڈرون حملے بھی کیے گئے ہیں، حملوں کے بعد حیفہ آئل ریفائنری میں آگ لگ گئی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایران نے جوابی کارروائی ’وعده صادق 3‘ کا آغاز کرتے ہوئے اسرائیل کے مختلف مقامات پر میزائل حملے کیے تھے۔
گزشتہ رات سے جاری حملوں میں اسرائیل کی کئی عمارتیں تباہ ہوگئیں جب کہ ان حملوں کے نتیجے میں خاتون سمیت 5 اسرائیلی شہری ہلاک اور 170 سے زائد زخمی ہوگئے۔
گزشتہ روز ایران کی جانب سے تل ابیب میں اسرائیلی جوہری تحقیقی مرکز اور اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ہیڈکوارٹرز پر بھی میزائل حملہ کیا گیا۔
اب تک کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو دونوں ممالک ایکدوسرے کی دفاعی ‘ عسکری اور سٹریجٹک تنصیبات و شخصیات کو نشانہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔جہاں تک اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ایرانی نقصانات کا تعلق ہے تو اسرائیل نے ایران پر 13 جون 2025 کو تقریباً صبح 3 بجے (ایرانی وقت) ایک غیر معمولی اور وسیع پیمانے پر ہوائی حملہ کیا ہے۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق، “Operation Rising Lion” نامی مشن میں اسرائیلی ایئر فورس کے 200 سے زائد جدید لڑاکا طیاروں نے ایران کے عسکری اور جوہری اہداف کو انتہائی منظم انداز میں نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فضائی بیڑے میں شامل امریکی ساختہ F‑15I، F‑16I اور F‑35 اسٹیلتھ طیارے بھاری ہتھیاروں، لانگ رینج میزائلوں، اور جدید الیکٹرانک وارفیئر ٹیکنالوجی سے لیس تھے۔ ان طیاروں نے تہران، اصفہان، ہمدان، اور کرمان کے قریب واقع ایئر ڈیفنس مراکز، میزائل فسیلٹیز، ناتانز افزودگی مرکز، دیگر جوہری تنصیبات، اعلیٰ کمانڈروں کی رہائش گاہوں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز سمیت 100 کے قریب اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔

حملے میں ایران کو شدید جانی، عسکری اور اسٹریٹجک نقصانات کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ حسین سلامی، ایرانی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری، اور فضائی دفاع کے سربراہ جنرل غلام علی رشید شہید ہو گئے، اعلیٰ مشیر علی شمخانی شدید زخمی ہونے کے بعد جانبر نہ ہو سکے۔ دو نامور نیوکلیئر سائنسدان—فریدون عباسی داوانی اور محمد مهدی طہرانچی—بھی حملے کا نشانہ بنے۔ تہران کے شمالی رہائشی علاقوں میں 50 سے زائد شہری ہلاک یا زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ دفاعی تنصیبات بشمول ناتانز یورینیم افزودگی مرکز، میزائل فیکٹریاں، ریڈار اسٹیشنز اور S‑300 میزائل دفاعی نظام کو نقصان پہنچنے کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ ایران کی عسکری کمانڈ، ایئر ڈیفنس نیٹ ورک اور نیوکلیئر پروگرام کے لیے بھاری دھچکہ ہے۔
حملے کی رفتار، اہداف کی درستگی، اور ایرانی دفاعی نظام کو معطل کرنے کی صلاحیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کارروائی طویل منصوبہ بندی اور انٹیلیجنس معلومات پر مبنی تھی۔ تاہم اس سے کئی ایک سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔
ایران کے دارالحکومت تہران سے اسرائیل کا فضائی فاصلہ کم از کم 1,700 سے 1,800 کلومیٹر ہے۔ اتنے فاصلے تک حملے کے بعد واپسی کے لیے، اسرائیلی طیاروں کو لازمی طور پر ری فیولنگ کی ضرورت پیش آتی ہے، خاص طور پر جب وہ بھاری بم لے کر جا رہے ہوں۔
اسرائیل کے پاس صرف 7 سے 8 KC‑707 “Re’em” بوئنگ ری فیولنگ طیارے موجود ہیں جو محدود تعداد میں لڑاکا طیاروں کو ایندھن فراہم کر سکتے ہیں۔ 100 کے لگ بھگ طیاروں پر مشتمل بیڑے کے لیے یہ سہولت نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل نے اس آپریشن کے لیے لازمی طور پر بیرونی مدد حاصل کی۔ واضح ہوکہ فلسطین کی تباہی کے بعد اگر ایران پر کفر غالب آگیا تو اسکے بعد کوئی اسلامی ملک یا ریاست محفوظ نہیں ہونگے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.