شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی کامیابی ،دنیا پاکستانی بیانیہ کی معترف
اداریہ
عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے جب بھی پاکستان کو انٹرنیشنل فورم پر اپنا مافی الضمیر پیش کرنے کا موقع ملا اس نے دنیا کو انسانیت کی فلاح کے حوالے سے جامع پلان دیا اس تناظر میں اب شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 23 ویں سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے عالمی مالیاتی ڈھانچے اور تجارتی نظام کی اصلاح کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستحکم افغانستان صرف خواہش نہیں بلکہ ضرورت ہے اور عالمی برداری سے افغان سرزمین کو دہشت گردی کے استعمال سے روکنے کے لیے مدد کرنے کا مطالبہ کیا۔سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے عالمی رہنما اور مندوبین کنونشن سینٹر پہنچے، ایس سی او سیکریٹری جنرل، ایران کے وزیر صنعت سید محمد اتابک، منگولیا کے وزیراعظم ایون اردین، بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، ترکمانستان کے وزیر خارجہ راشد میریدوف بھی کنونشن سینٹر اسلام آباد پہنچے جن کا وزیراعظم شہباز شریف نے استقبال کیا۔بیلاروس کے وزیراعظم رومان گولوف چینکو اور تاجک وزیراعظم ہررسول زادہ کے ساتھ ساتھ قازقستان کے وزیراعظم اولژاس بیک تینوف بھی کنوشن سینٹر پہنچے۔بعد ازاں، روس کے وزیراعظم میخائیل مشوستن اور چین کے وزیراعظم لی چیانگ کنونشن سینٹر پہنچے، وزیراعظم شہباز شریف نے ہم منصبوں کا پرتپاک استقبال کیا۔وزیر اعظم نے ایس سی او اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے معزز مہمانوں کو دارالحکومت اسلام آباد میں خوش آمدید کہتے ہوئے بہت انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے، ہم سربراہان مملکت کی ایس سی او کونسل کی شاندار تقریب کی میزبانی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں جو دنیا کی 40 فیصد آبادی کی آواز تصور کی جاتی ہے۔ آپ کی یہاں موجودگی ہمارے عوام کی امنگوں پر پورا اترنے کے ہمارے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتی ہے تاکہ ہم ایس سی او خطے کی پائیدار ترقی اورخوشحالی کے لیے مجموعی سیکیورٹی اور دوطرفہ مفاد پر مبنی تعاون کو فروغ دے سکیں۔ان کا کہنا تھا کہ آج کا اجلاس ہماری متنوع اقوام کے مابین تعلقات اور تعاون کو مضبوط کرنے کا ایک اور ثبوت ہے جہاں ہم مل کر سماجی معاشتی ترقی، علاقائی امن و استحکام اور اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ آئیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بہترین آئیڈیاز اور بہترین اقدامات کے اشتراک اور ٹھوس اقدامات مرتب کرنے کے لیے استعمال کریں جو ہماری معیشتوں اور معاشرے کے لیے سودمند ثابت ہوں۔وقفے کے بعد دوبارہ خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کثیرالجہتی کی کرن تصور کیے جانے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اس عظیم الشان پلیٹ فارم سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا ماننا ہے کہ ہم میں ایک ایسا مستقبل تشکیل دینے کی ناصرف صلاحیت بلکہ اجتماعی خواہش بھی ہے جو ہمارے لوگوں کے لیے زیادہ خوشحال، مستحکم اور محفوظ ہو، ایک ایسا مستقبل جو تمام رکن ممالک کی خواہشات کا عکاس ہو۔انکا کہنا تھا کہ جب پاکستان نے گزشتہ سال اگست تنظیم کی سربراہی سنبھالی تو ہم نے علاقائی امن اور استحکام کے قیام، کنیکٹیوٹی میں اضافے اور پائیدار سماجی معاشی ترقی کے اپنے عزم کا اعادہ کیا، ہمارا ماننا ہے کہ یہ ایس سی او کی ترقی اور ہمارے مجموعی وژن کے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور تمام رکن ممالک کی کوششوں سے ہم اس راستے پر آگے بڑھنے کے لیے پرعزم ہے۔غربت کوئی معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ہماری اخلاقی ذمے داری ہے جو ہم سب کی مجموعی توجہ کا حقدار ہے، ایس سی او خطے میں کروڑوں افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لہٰذا اس غربت کے خاتمے کے لیے تعاون بہت ضروری ہے،یہ بہت ضروری ہے ہم ایس سی او میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تعاون کو ترجیح دیں۔بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان کی کونسل کی صدارت پر کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کامیاب صدارت کے لیے بھارت اپنی مکمل حمایت کا اظہار کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو احساس ہے کہ دنیا بڑی تقسیم کی جانب بڑھ رہی ہے،ہماری کوششیں اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب چارٹر سے ہماری وابستگی مضبوط رہے گی،ان حالات میں پاکستان نے عالمی برادری کو اس کی ذمے داریوں کا احساس دلاتے ہوئے جو ملکر چلنے کا عزم ظاہر کیا اس پر دیگر ممالک نے مکمل اتفاق کیا ہے یہی اس کانفرنس کے انعقاد کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔