توہین عدالت کا خوف
روداد خیال ۔۔۔۔۔۔صفدر علی خاں
کل جب میرے اخبار کے لئے ایک ایکسکلوزیو سٹوری دینے والے معزز رکن نے اپنی بائی لائن خبر کے بارے میں مجھے جگا کر خبر بنانے کے حوالے سے فون کیا تو میں ان کا فون نہ سن سکا کچھ دیر بعد text message کیا گیا جس پر میں نے خبر سے پہلے کالم لکھنے کی ٹھان لی ،خبر کا خلاصہ یہ تھا کہ “صرف لاہور کی ماتحت عدالتوں میں ایک لاکھ 66ہزار ایک سو 41مقدمات زیر التوا ہیں “۔
اس پر مجھے رواں ماہ کی 8تاریخ کو 27سالہ پرانے مقدمے کا فیصلہ تاخیر سے کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معافی مانگنے کا واقعہ یاد آ گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی شریعت اپیلیٹ بینچ نے ملزم محمد اکرم کی اپیل پر سماعت کی تھی جس میں ” چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملزم کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اتنے سال جیل میں گزارنے پڑے اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں” کچھ فیصلے انصاف سے تاخیر کی وجہ سے محروم رہے تو کہیں جلد بازی میں ہونے والے فیصلے بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے عاری رہے ،یہاں پر کئی اپیل کرنے والے بے گناہوں کو برسوں تک انصاف ملنے کے انتظار میں موت کوگلے لگانا پڑ گیا تو کہیں بن مانگے ہی جلدی میں “انصاف ” اقلیتی نشستوں کی صورت کسی سیاسی جماعت کی جھولی میں ڈال دیا گیا ۔ مجھے 18ویں صدی میں الہ آباد ہائیکورٹ کے فاضل جج کا واقعہ یاد آ رہا ہے جس کا تذکرہ ہماری تاریخی کتب میں موجود ہے ،واقعہ میں الہ آباد ہائیکورٹ کاایک جج فیصلہ لکھواتے ہوئے غیر متعلقہ موضوع چھیڑ بیٹھا انکا فیصلہ لکھنے والے نے واش روم کے بہانے سے اٹھ کر دیگر ججز کے چیمبرز میں گیا اور بتایا کہ جج صاحب کو کیا ہوا ہے کہ وہ اس مقدمے کے فیصلے میں کچھ اور ہی لکھوا یرہے ہیں ،ججز نے متفق ہوکر غلط فیصلہ لکھوانے والے اس جج کا میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا سائیکاٹرسٹ سے ملنے والی معائنہ رپورٹ میں انکشاف یہ ہوا کہ” مبینہ جج گزشتہ دس برس سے دماغی توازن کھو بیٹھاہے ” الہ آباد ہائیکورٹ کے متذکرہ جج کی کہانی پر اگر یقین کرلیا جائے تو پھر نہ جانے دس برسوں کے دوران کتنے بے گناہوں کو پھانسی ہوچکی ہوگی اور کتنے گناہ گار بری ہوئے ہونگے ،تاہم الہ آباد ہائیکورٹ میں اصلاحات کا یہاں سے عمل بھی جاری ہوا ،ہائیکورٹ کو وسعت ملی ،17مارچ 1866ء سے پھر لکھنو برانچ کا آغاز ہوا ،ججز کی تعداد بڑھائی گئی اور ججوں کے دماغی صحت کے معائنے کو بھی لازمی قرار دیدیا گیا ۔تاہم پاکستان میں عدلیہ سے متعلق عوامی شکایات پر توہین عدالت کا خوف ہی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ۔کسی کی جانبداری پر سوال اٹھائیں تو توہین عدالت ،فیصلے تنقیحات سے ہٹ کر سنائے جانے پر کوئی بولے تو توہین عدالت کا ارتکاب سرزد ہونے کا احتمال گھیر لیتا ہے ۔اب 12جولائی 2024ء کو اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے اکثریتی فیصلے نے ملک میں نئی بحث چھیڑ رکھی ہے ،حکومت خود اس غیر متوقع فیصلے پر حیران وششدر ہے اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے اختیارات و طریقہ کار کے حوالے کوئی نئی ترامیم متعارف کروانے کی خواہاں دکھائی دیتی ہے ،اقتدار اور اختیار کی رسہ کشی میں یہاں عدلیہ کے استعمال کی روایت بڑی پرانی ہے جسے اب نظریہ ضرورت سمیت دفن کرنا ہوگا ،سپریم کورٹ کے اس فیصلے کیخلاف دوسرے فریق بھی سامنے آگئے ہیں ،نظرثانی کے ان خواہشمندوں کی دلیل ہے کہ پی ٹی آئی تو فریق ہی نہیں تھی اور دوسرا 8فروری2024 ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے تو بطور سیاسی جماعت حصہ ہی نہیں لیا ۔پی ٹی آئی کے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوکر الیکشن لڑنے پر وہ کہتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے تو خود الیکشن آزاد حیثیت سے لڑا ،قانون کے تحت الیکشن کمیشن میں فروری 2024ء کے انتخاب سے قبل عورتوں اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستوں کے حصول کے لئے نامزد کردہ افراد کی فہرست بھی جمع نہیں کروائی گئی تھی اور سنی اتحاد کونسل کے اپنے منشور میں ہی مخصوص نشستوں کی معمانعت ہے ،سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل جو اس مقدمہ میں پٹیشنر ہے اسکی دائر کردہ پٹیشن متفقہ طور پر یہ بنچ خارج کردیتا ہے،سوال یہ ہے کہ جب پٹیشن ہی خارج ہو جائے تو باقی کیا بچا،کوئی کسی کوکیا سمجھائے ؟… ۔ان حالات میں اب پارلیمنٹ اور آئینی ادارے کے مابین اختیارات کی جنگ تیز ہوگئی ہے ،ماضی میں ہمیشہ ریاست کی حمایت میں ہی فیصلے سنائے جانے کی روایت دیکھی گئی ہے۔سیاسی حلقے پہلی بار روایات سے ہٹ کر چلنے کی وجہ ایک “جن ” کو قرار دیتے ہیں جو ایک سیاسی جماعت کے بانی سربراہ کی مٹھی میں تھا ،مگر سپریم کورٹ کے تحریری تفصیلی فیصلہ آنے سے قبل ہی وہ “جن” ریاست نے قابو کرلیا ہے ۔آگے دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ !